الیکشن اور شعوری تقاضے
فی زمانہ جبکہ پاکستانی نظام سیاسی معاشی و اخلاقی زوال کی جن حدوں کو چھو رہا ہے ایسے میں الیکشن کیا اسے زوال سے نکالنے کی ممکنہ حکمت عملی ہو سکتی ہے یا
الیکشن اور شعوری تقاضے
تحریر؛ ڈاکٹر شہزاد ظفر، سیالکوٹ
یہ جملہ موت دکھا کر بیماری پہ راضی کرنے کے مترادف ہے کہ "یہاں ووٹ کی قدر نہ ہونا اصل مسئلہ نہیں، بلکہ کم ٹرن آوٹ اصل مسئلہ ہے"۔ یہی دراصل اس زوال کی اہم ترین نشانی ہے کہ بہ قول شاعر:
؎ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
آپ ضرور تشریف لے جائیے اور اپنے من پسند امیدوار کو ووٹ بھی ڈالیں ۔آپ کے جذبے کی تسکین تو ہو جائے گی، لیکن ضمیر اور شعور سے بھی مشورہ کر لیجیے کہ
1۔ سسٹم کیا ہوتا ہے اور اس کے ذمہ جو ہمارے حقوق ہیں کیا 76 سالوں سے وہ انھیں ادا کر رہا ہے یا نہیں ؟
2۔ یاد رہے کہ سسٹم کے ذمہ ہمارے کون سے حقوق ہیں وہ جو خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ نے بتائے اور جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں بھی انسانیت کے تناظر میں درج ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ان پر عمل درآمد ایسے ہی ہو رہا ہے، جیسے پاکستان میں ان پر عملدرآمد کی صورت حال ہے۔
3۔ پاکستانی مقتدرہ عالمی مقتدرہ کے احسانوں ( ڈالرز) کی مقروض ہے ۔کوئی شک ؟
4۔ اس نظام میں پارلیمنٹ ، عدلیہ اور بیوروکریسی کس طرح سے وسائل کی لوٹ مار کر رہے ہیں، بلکہ یوں سمجھیں کہ جیسے کسی جسم کو کینسر لاحق ہو جائے تو جس طرح وہ خون نچوڑ لیتا ہے، اسی طرح یہ اس قومی جسم میں سے وسائل معیشت نچوڑ کر اسے لاغر کر رہے ہیں تو گویا ووٹ دینا انھیں پینا ڈول دے کر مریض کو مطمئن کرنے کے مترادف ہے
5۔ یہ سسٹم ہمیں Divide & rule کی پالیسی کے تحت اتنے گروہوں میں بانٹ چکا ہے کہ قومی وحدت فکری نہ ہونے کے سبب ہمیں بآسانی شکار کر لیا جاتا ہے اور اس حوالے سے راہ نمائی نہ ہونے کے سبب ہم پھر اسی سسٹم سے امیدیں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔
6۔ ہمارا سیاسی شعور اس سے اوپر جاتا ہی نہیں کہ محلے یا علاقے میں ہماری چودھراہٹ قائم رہے اور گلیاں پکی کروانے، میٹر لگوانے یا تھانے کچہری کے معاملات سے زیادہ ہمارا سیاسی شعور میچور ہی نہیں ہو سکا ۔
7۔ اس سیاسی بچگانہ پن کی وَجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاں مقتدرہ نے سیاسی شعور کو بیدار ہونے ہی نہیں دیا ۔ تقسیم کیے رکھا کبھی مذہبی اور کبھی لسانی بنیادوں پر۔ اور نہ ہی سیاسی اداروں کو develop ہونے کا موقع دیا، جس کی وَجہ سے آج ہم مکمل طور پر اس سسٹم کے جبر کا شکار ہیں۔ پھر بھی ووٹ دے کر اس کو مضبوط کریں؟
8۔ سسٹم کے یہ ادارے تاریخ میں جس طرح سے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے استعمال ہوئے، اس کی مثال نہیں ملتی ۔ کبھی عدلیہ کو سیاسی حکومتوں کو توڑنے کے لیے استعمال کیا گیا تو کبھی فوجی آمریت سے پارلیمنٹ کو کچلا گیا ۔اور عالمی مقتدرہ نے اپنے من پسند سیاسی و معاشی نتائج حاصل کیے اور نتیجہ پاکستان دولخت بھی ہوا، اور دوسری طرف اسے اپنے عالمی تزویراتی مقاصد کے لیے افغان فساد کی بلی چڑھایا گیا ۔
9۔ اس کا نتیجہ یا معاشرے پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ کسی بھی زوال یافتہ معاشرے کی شکل میں ہم دیکھ سکتے ہیں ۔ خوف ، دہشت گردی ، معاشی بدحالی اور اس جیسے کئی عفریتوں نے جنم لیا، بلکہ دورِحاضر کے چیلنجز کی شکل میں آج ہمارے سامنے موجود ہیں ۔کیا اس تھکے ہارے نظام سے امید ہے کہ ووٹ دے کر یہ مسائل حل ہوجائیں گے تو ضرور دیجئے ووٹ۔ اور اس گندے نظام کو مزید مضبوط کیجئے۔
10۔ ویسے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جبر کے جن ہتھکنڈوں سے ان سیاسی پارٹیوں کی انجینئرنگ کی جاتی ہے، اقتدار کی بندر بانٹ ، باریاں لگی ہوئی ہیں، وہاں پہلے سے ہی نئی آنے والی حکومت کا پتہ چل جاتا ہے تو وہاں اگر ٹرن آوٹ 100 فی صد ہی کیوں نہ ہو، ووٹ کی قدر کہاں رہ جاتی ہے ۔ لیکن پھر بھی ووٹ قوم کی امانت ہے !!!!
عزیز دوستو! نظام ظلم کا شعور حاصل کرنا، اس وقت دورحاضر کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ووٹ ووٹ بھی کھیلتے رہیں، لیکن کم از کم اپنے سیاسی شعور کی بیداری کے لیے دنیا میں آئے ہوئے انقلابات کو تو سٹڈی کریں اور خاص طور پر حضور اکرم ﷺ اور جماعت صحابہؓ کی حجاز کے نظام کو بدلنے کی حکمت عملی پہ ہی غور وفکر کی ابتدا تو کریں ۔
قومی جمہوری دور میں ایران ، روس اور چین کے انقلابات کہ جس میں قوم کی شیرازہ بندی کے لیے ایک وحدت فکری و وحدت عملی ، جماعت سازی رائے عامہ کی ہمواری اور اس ظالمانہ نظام کی بیساکھیوں الیکشن وغیرہ سے ہٹ کر انقلاب کے عمل سے اپنے معاشرے کو روشناس کروائیں، تاکہ یہاں سے عالمی مقتدرہ کی interference کا خاتمہ ہو ۔ ظالمانہ نوآبادیاتی دور کے قوانین بدلیں اور اپنی سرزمین کو ہم آزادی سے ہمکنار کرنے کی منزل مقصود پہ پہنچ سکیں ۔