ملک میں رائج نظام کی طاقت و قوت کا منظرنامہ
نظام کے اندر ایک زبردست طاقت ہوتی ہے وہ خود کو آسانی سے ختم ہونے نہیں دیتا اور اپنی بقاء کے لئے شطرنج کی ہر چال کھیلتا ہے
ملک میں رائج نظام کی طاقت و قوت کا منظرنامہ
تحریر: مشترکہ کاوش ڈاکٹر محمد وقاص ملتان و محمد اصغر خان سورانی بنوں
کسی بھی ملک میں رائج نظام ایک زبردست قوت اور طاقت کی مانند ہوتا ہے جو خود کو آسانی سے ختم ہونے نہیں دیتا۔ طاغوتی نظام اپنی بقا کے لیے شطرنج کی ہر چال کھیلتا ہے اور گرگٹ کی طرح ہر رنگ بدلتا رھتا ہے،لیکن اپنے آپ کو ہر حالت میں قائم رکھتا ہے۔ نظام کی طاقت یہ ہے کہ جب چاہے کسی بھی عام شخص کو زیرو سے ہیرو بنا دے اور کسی چھوٹی سی سیاسی پارٹی کو علاقائی سطح سے ملکی اور بین الاقوامی سطح کی شہرت اور اونچائیوں پر لے جاتا ہے اور جب چاہے اسی پارٹی کو زمین بوس کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اگلے انتخابات میں ان سے انتخابی نشان تک چھین لیتاہے اور ان کے بڑے بڑے رہنما گم نام حیثیت سے الیکشن لڑنے پر مجبور ہوتے ہیں اور پارٹی کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے۔ جب وجود نہ رہے تو الیکشن سے پہلے ہی نظام ان سے ریزرو سیٹیں بھی چھین لیتا ہے ۔ مثال آپ کے سامنے ہے، ملک کی سب سے بڑی پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی نشان نہ ملنے کی صورت میں وہ قومی اور صوبائی ریزرو سیٹوں میں اپنے حصّہ سے محروم ہوگئی ۔
جب پارٹی کے پاس انتخابی نشان ہی نہ رہا تو اَب آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے اور ہر حلقہ پر الگ الگ نشان ہونے کی وَجہ سے ووٹوں میں کمی کا خطرہ موجود تھا، لیکن پاکستان تحریک انصاف کے نمائندوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا، انہیں کثیرتعداد میں ووٹ مل گئےلیکن سسٹم کی طاقت نے انتخابی نتائج کے بعد ان کے جیتے ہوئے امیدواروں کو سازباز کے ذریعے ، ان کی وفاداری تبدیل کر نے کاعمل جاری ہے تاکہ کسی اور جماعت جن کے پاس گورنمنٹ بنانے کا قوی امکان موجود ہے، کے ساتھ اتحاد کرانے پرمجبور کیاجاسکے۔ ان کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ آپ نے آزاد حیثیت سے الیکشن جیتا ہے ۔
جب کسی پارٹی کی صف اول کی قیادت بوجوہ الیکشن میں حصہ لینے میں ناکام رہے تو صف دوم کی قیادت جیتنے کے بعد کتنا وزن برداشت کرسکتی ہے، اور ساتھ میں یہ امکان بھی موجود ہے کہ اس سٹیج پر بھی بہت ساری جیتی ہوئی سیٹیں ان کے ہاتھ سے نکل جائیں۔
سسٹم کی طاقت نے ملک کی دو تہائی مقبولیت رکھنے والی جماعت کو اس موڑ پر کھڑا کر دیا ہے کہ کثیر تعداد میں ووٹ ملنے کے باوجود بھی ان کے لیے حکومت بنانا آسان نہیں ہے۔
اس پورے عمل سے، میکا ولی اصولوں پر مبنی سیاسی نظام کے ساتھ پیوست ایک سادہ سی حقیقت بھی آشکارا ہو جاتی ہے جو آج سے نہیں، بلکہ انگریزوں کے بنائے کالونیل دور سے موجود ہے وہ یہ کہ سامراجی نظام جن حرکیات کے ذریعے طاقت اور اقتدار پہ قابض ہے، الیکشن کا عمل ان حرکیات کا توڑ نہیں، بلکہ ان کا ایک حصّہ ہے ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ یہ صرف ایک دلھاوا ہے ۔
موجود صورتِ حال میں پاکستان تحریک انصاف کے پڑھے لکھے کارکنوں اور پارٹی کے ساتھ ہم دردی رکھنے والوں کے پاس اَب یہ تین راستے(آپشننز) باقی ہیں ۔
پہلا راستہ مایوسی کا ہے، جس پر چل کر زیادہ تر کارکن مایوس ہوکر اِنفرادیت اور بھیڑ چال کا شکار ہو جائیں۔سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور اس استحصالی نظام کو ختم کرنے کے بجائے اس میں اپنا حصّہ ڈالنا شروع کر دیں ۔ یقیناً ایسا عمل اپنے انسانی اوصاف سے محرومی اور بھیڑیوں کے غول کا حصّہ بننے یا ان کے خلاف جدوجہد نہ کرنےکے مترادف ہو گا ۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس وقت کا انتظار کریں، جب نظام ان پر مہربان ہوجائے تو تب تک خود کو نظام کی کچی پکی نوکری کے لیے پیش کرتے رہیں اور جس طرح باقی سیاسی جماعتوں نے جمہوری جدوجہد کے نام پر مالکوں کی گماشتگی کا ڈرامہ رچایا ہوا ہے ۔انھی کی تقلید کرتے ہوئے اس وقت کا انتظار کریں، جب نظام ان کی تابع داری پہ اعتماد کرکے ان کو مرضی کا چیف اور جج فراہم کر دے۔یہ عمل بھی ان کو اس بنیادی سوچ اور نظریہ سے محروم کر دے گا جو پارٹی نے حقیقی آزادی ،نئے پاکستان اور تبدیلی کی صورت میں آپ کے اور میرے ذہن میں ڈال دیا تھا ۔لیکن اس عمل سے پارٹی کی سوچ دفن ہو جائے گی ۔
تیسرا راستہ یہ ہے کہ اگر نظریاتی کارکنان اور راہ نما واقعی اس نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، تو ان کو چاہیے کہ وہ اس نظام کا حصہ نہ بنیں، بلکہ ان کو چاہیے کہ وہ اس نظام کی استحصالیت کو مزید اچھے طریقے سے سمجھ کر اس کے حقیقی اور ہمہ جہت حل کی طرف متوجہ ہونا شروع ہو جائے۔اپنا تربیتی نظام وضع کرے۔یا سماج کے اندر حقیقی انقلابی جماعت کو تلاش کرکے اس کا حصہ بنے اور صرف جذباتی طور پر فرد واحد کے ساتھ اپنے تعلق کی بنیاد پر نہیں، بلکہ شعوری لحاظ سے نظام کے عفریت کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ اور اسی عفریت سے وابستہ غیرحقیقی توقعات سے جان چھڑانے کی کوشش کریں ۔ریاستی میکنزم سے الگ اپنی شرائط اور اصولوں پر جمہوری اور قومی جدوجہد کا روڈ میپ بنا لیں اور تاریخ کا مطالعہ کریں، تاکہ یہ بات ان کو سمجھ آ جائے کہ پاکستان کی طرح دوسرے کالونیل معاشروں نے کیسے اور کن بنیادوں پہ اپنے فرسوده نظاموں کو شکست دی ۔پھر اسی علم وعمل کو اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا حصّہ بنالیں۔
پہلے دو راستے ، بہت ساری پارٹیوں نے اپنائے ہیں اور نتیجتاً یا تو ان کا سیاسی کیرئیر ختم ہوگیا ہے اور یا اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔ اَب پی ٹی آئی کس راستے کا انتخاب کرتی ہے؟اس کا انحصار اَب ان کی قیادت کے کندھوں پر ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ انسانی تاریخ میں جتنی بھی جماعتیں انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں، انھوں نے سسٹم کا حصہ بننے کے بجائے سسٹم سے باہر رہ بھرپور تیاری کی ہے اور ایک منظم جماعت تیار کرکے رائج سسٹم کے متبادل سسٹم کو ترقی دی ہے اور ایک خاص وقت تک عدم تشدد کی پالیسی پر عمل کرکے ہی تبدیلی برپا کی ہے۔ کبھی بھی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی زوال یافتہ معاشرے میں ہمہ جہت تبدیلی کے لیے کوئی شارٹ کٹ راستہ اپنایا گیا ہو یا کسی سپر سٹار، ہیرو، یا مخلص سی لیبرٹی نے جماعت کے بغیر تبدیلی برپا کی ہو، ہرگز نہیں ،بلکہ جتنے بھی انبیائے کرام علیہم السلام گزرے ہیں، سب نے جماعت بنائی ہے اور اس جماعت کی تربیت کی ہے اور تربیت کے ذریعے جب جماعت اور قیادت کی تیاری مکمل ہوئی۔تب جا کر کے اس وقت کے رائج نظام کو چیلنج کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و نصرت سے کامیاب ہوئے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔