اردگان فلسطین کا دوست نہیں ہے
This article is a translation of Jacobin's article titled "Erdogan is no friend of Palestine" that sheds light on the diplomatic policies of turkey.
اردگان فلسطین کا دوست نہیں ہے
مصنف: ایڈر سیمرڈون
مترجم: طلحہ محمود راجپوت ، کوٹ ادو
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے اسرائیل کی مذمت میں جوشیلے بیانات بہ ظاہر جرات مندانہ محسوس ہوتے ہیں، مگر ترکی کے اسرائیل سے تجارتی تعلقات ایک مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ حتمی نتیجے میں اردگان کی اسرائیل کو دھمکیاں ترکی میں اس کے ووٹروں کے مابین ختم ہوتی حمایت کو بڑھانے کی ایک مذموم کاوش ہے۔
غزہ میں جاری قتل و غارت کے دوران، ترک صدر رجب طیب اردگان اپنے جوشیلے تبصروں کی بدولت دنیا کے راہ نماؤں میں نمایاں ہورہے ہیں۔ جن میں اسرائیل کو ایک دہشت گردانہ ریاست قرار دینے اور بنجمن نیتن یاہو (Benjamin Netanyahu) پر جنگی مجرم کے طور مقدمہ چلانے کا مطالبہ شامل ہے۔ ترکی کو وسطی ایشیا میں سب سے بڑا ملک شمار کرتے ہوئے، ترکی کا اسرائیل سے دور ہونا فلسطینیوں کے لیے ایک اہم پیش رفت ثابت ہوگا۔ تاہم یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اردگان نے اسرائیل کے خلاف اس قدر سخت زبان استعمال کی ہے۔
2010ءمیں غزہ کے لیے مدد لے جانے والے جہاز میں جب آٹھ ترک شہری قتل کر دیے گئے تو اردگان نے اسے ریاستی دہشت گردی قرار دیا، اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیے اور اسرائیل پر بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمہ لے جانے کا ارادہ ظاہرکیا۔ اس مضبوط مؤقف کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا۔ چند سال بعد یہ سب بھلا دیا گیا اور اسرائیل اور ترکی نے اکٹھے مشرقی بحیرہ روم میں تیل اور گیس کی تلاش کے پروجیکٹس پر کام شروع کردیا۔
اردگان ایک جوشیلا سیاسی مقرر و راہ نما کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ جو سٹیٹس کو (status quo) برقرار رکھتے ہوئے قائم شدہ بیانیے کے بارے میں چیلنجنگ بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ اردگان کی اسرائیل کی مذمت کی تاریخ بڑھتے ہوئے متشدد ادوار سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔
تناؤ کا شکار دوستی
اسرائیل اور ترکی کے درمیان تناؤ کی تاریخ 1948ء میں اسرائیل کے قیام سے شروع ہوتی ہے۔ زیادہ تر ترکوں میں فلسطین کے حامی جذبات اور صیہونیت کی مخالف ریاستوں اور گروہوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے ترکی کے حکمران اکثر اسرائیل کے خلاف بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ تاہم ترکی کے بیانیے کے باوجود خطے میں مغرب کے موجودہ اثر و رسوخ نے اسرائیل اور ترکی کے درمیان قریبی شراکت داری کو فروغ دیا ہے۔
1947ء میں اقوام متحدہ کے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی ابتدائی مخالفت کے بعد ترکی 1949ء میں اسرائیل کی آزادی کی حمایت کرنے والا پہلا مسلم اکثریتی ملک بن گیا۔ سردجنگ کے اختتام پر ترکی مغرب کے ساتھ جڑتے ہوئے نیٹو میں شامل ہوا۔ اسرائیل کی مذمت کے باوجود، 1967ء میں چھ روزہ جنگ کے اثرات کے نتیجے میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع نہ کرنے والی مسلم اکثریتی ریاستوں میں ترکی واحد ریاست تھی۔ جب کہ مشرقِ وُسطیٰ کے بہت سے ممالک نے تعلقات منقطع کر دیے اور اسرائیل کو داخلے سے روک دیا، مگر ترک اسرائیل تجارت اور سیاحت بڑھتی گئی۔ تاہم علاقائی اور اندرونی تنقید سے بچنے کے لیے ترکی نے ان تعلقات کو خفیہ رکھا۔
سوویت یونین کے منہدم ہونے کے بعد، مشرقِ وسطیٰ میں مغربی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا، جس سے ترکی اور اسرائیل کے خفیہ تعلقات عوام کے سامنے آگئے۔ 1990ء کی دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان اسلحے کی تجارت میں اضافہ ہوا، اور وہ مشترکہ فوجی مشقوں میں مصروف ہوگئے۔
جب 2002ء میں اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (AKP) نے الیکشن جیتا اور اگلے سال اردگان وزیراعظم بنے تو ایسا لگتا تھا، جیسے حالات تبدیل ہو جائیں گے۔ AKP کے ترکی کے طویل مدت سے قائم سیکولرازم کو چیلنج کرنے کے ساتھ کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ سیاست میں زیادہ اسلامی رجحان کا نتیجہ اسرائیل کی بڑی مخالفت کی صورت نکلے گا۔
مگر جیسے امریکہ میں قدامت پسند عیسائی، عیسائیت کے اصولوں سے منہ موڑ کر اسے برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اسی طرح اردگان کے اسلامی ریاست کے دعویٰ سے کم تبدیلی رونما ہوئی۔ ابتدا میں اردگان نے اسرائیل کے وزیراعظم ایرئیل شیرون (Arial Sharon) سے ملنے سے انکار کر دیا۔ اس نے 2000ء تا 2005ء کے درمیان جاری رہنے والی فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد جسے دوسرا انتفادہ (Second Intifadah) بھی کہا جاتا ہے، پراسرائیل کے ردعمل کو دہشت گردی قرار دیا اور فلسطینیوں کی تکلیف کا پندرہویں صدی سے انیسویں صدی تک جاری رہنے والی ہسپانوی عدالتی کمیشن کے ذریعے یہودیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے موازنہ کیا۔ دوسرے انتفادہ کے پانچ سالوں کے دوران ترکی کی اسرائیل برآمدات میں دوگنا اضافہ ہوا۔دوسرے انتفادہ کے اختتام پر اردگان نے فی الفور تاجروں کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے وزیراعظم شیرون سے ملاقات کی۔
دوہری سفارت کاری
اسرائیل سے تعلقات بہتر کرنے کے دوران، اردگان شام سے بھی تعلقات استوار کر رہا تھا۔ ماضی میں ایک دوسرے کے دشمن رہنے والے ممالک ترکی اور شام نے 2004ء میں آزادانہ تجارتی معاہدے پر دستخط کیے۔ اردگان کا خیال تھاکہ اسرائیل کے ساتھ باہمی میل جول ترکی کو شام اور اسرائیل کے درمیان ثالث کا درجہ دے سکتا ہے۔ اس طرح ترکی مَشرقِ وسطیٰ میں ایک راہ نما کا مقام حاصل کر لے گا۔
یہ امیدیں اس وقت ماند پڑ گئیں جب اسرائیل نے 2006 میں لبنان پر حملہ کیا اور پھر 2008 اور 2009 میں غزہ کا محاصرہ کیا۔ ایک بار پھر ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سماجی تعلقات کو سخت بیان بازی کے ساتھ معطل کردیا گیا۔ اس کے باوجود جس چیز نے اردگان کو زیادہ ناراض کیا وہ فلسطینیوں کی موت اور تباہی نہ تھی، بلکہ ترکی کے سفارتی امیج کو نقصان پہنچنا تھا۔ اس کے نتیجے میں اردگان نے کہا کہ "اسرائیل کی غزہ پر بمباری ترک جمہوریہ کی بے عزتی ہے۔ ہم شام اور اسرائیل کے درمیان امن کے مذاکرات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔" لیکن اس کے باوجود ترکی اور اسرائیل کے درمیان تجارت فروغ پاتی رہی۔
اگر کسی سال تبدیلی کا امکان تھا تو وہ 2010ء تھا۔ اسی سال مئی میں غزہ فریڈم فلوٹیلا، جس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد لے جانے والے چھ سویلین بحری جہاز شامل تھے،نے غزہ پر اسرائیلی محاصرہ توڑنے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ پاتے، اسرائیلی بحری فوج کے ارکان نے جہازوں پر دھاوا بول کر 10 لوگ قتل کر دیے۔ قتل کیے جانے والوں میں سے 8 ترک شہری تھے اور ایک ترک نژاد امریکی تھا۔
اس واقعہ کے بعد اردگان غصے میں دکھائی دیا۔ اپنے ایک بیان میں اردگان نے کہا: "اسرائیل کی غزہ کی طرف انسانی ہمدردی پر مبنی امداد لے جانے والے جہازوں پر یہ خونی قتل و غارت ہر طرح کی لعنت کی مستحق ہے"۔ اس نے اصرار کیا کہ "اسرائیل کو ہر طرح سے سزا ملنی چاہیے"۔ پہلی مرتبہ ترکی نے اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کیا، جس نے اسرائیل کو جوابی قدم اُٹھانے پر اُبھارا۔
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ترکی اسرائیل کو تنہا کرنے کے لیے مَشرقِ وُسطیٰ کے دیگر ممالک سے اتحاد کرلے گا۔ تاہم فلوٹیلا پر حملے کے اگلے سال، ترکی کی اسرائیل کو جانے والی برآمدات میں 50 فی صد اضافہ ہوا،جیسے جیسے اردگان کی بیان بازی بڑھتی گئی، ویسے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوتا گیا۔ 2013ء میں اردگان نے صیہونیت کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا۔ وہ سال دو طرفہ تجارت کے عروج کا وقت تھا۔ اس کے بیان کے ایک سال کے اندر اسرائیل اور ترکی نے تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل شروع کردیا۔ وزیراعظم بنجیمن نیتن یاہو نے اسرائیل کی جانب سے فلوٹیلا میں ترکوں کے قتل پر معذرت کی، جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہتری آنے لگی۔
2016ءمیں تعلقات کو بحال کرنے اور متاثرہ خاندانوں کو ہرجانہ دینے کے لیے معاہدہ طے پاگیا۔ فلسطین کے لیے بہ ظاہر فتح کے طور پر نظر آنے والے اس معاہدے میں ترکی کو غزہ اور مغربی کنارے میں انسانی ہمدردی پر مبنی امداد فراہم کرنے اور بنیادی ڈھانچے پر مبنی سرمایہ کاری کرنے کی اجازت تھی۔ تاہم یہ سرمایہ کاری ترکی اور اسرائیل کے درمیان دو طرفہ اربوں ڈالر کی تجارت کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ 2016ء میں ترکی اسرائیل کا نواں بڑا تجارتی پارٹنر بن چکاتھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تنازعات برقرار رہے۔ 2018ء میں ترک وزیر خارجہ نے اسرائیل کو بین الاقوامی فوجداری عدالت میں لے جانے کی وکالت کی اور اردگان نے فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا،مگر جیساکہ حزبِ اختلاف کے راہ نما محرم انس نے مشاہدہ کیا، ان ریلیوں سے صورتِ حال میں کوئی حقیقی تبدیلی واقع نہ ہوئی"۔ ہم نے سوال پوچھا کہ کیا آپ نے اسرائیلی اشیا کا بائیکاٹ کیا؟ تو جواب ملا " نہیں۔"
اگلے سالوں میں ترکی نے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے پر امریکا کی مذمت کی اور اسرائیل نے شمالی شام پر حملہ کرنے پر ترکی کی مذمت کی۔ ایک ایسے جوڑے کی طرح جو الگ نہیں ہو سکتے، دونوں ممالک زبانی طور پر لڑتے رہے، لیکن ان کی باہمی ہم آہنگی اور ایک دوسرے پر انحصار بڑھتا گیا۔ ترکی سٹیل جیسے خام مال کی فراہمی کا ایک ذریعہ بن گیا، جو اسرائیل کی درآمدات کا ایک تہائی تھا۔ جب اردگان صہیونیت کی مذمت کر رہا تھا تو ترکی اسرائیلی ہتھیاروں اور آبادیوں کے لیے ضروری اور اہم ترین مواد مہیا کر رہا تھا۔
اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان 2008ء میں با ضابطہ فوجی تعاون ختم ہو گیا تھا،لیکن ترکی نے اسرائیل کی فوجی برآمدات سے فائدہ اُٹھانا جاری رکھا۔ 2020ء میں آذربائیجان نے آرمینائی اکثریتی علاقے آرتسخ میں آرمینیائی لوگوں کی نسل کشی کرنے کے لیے کارروائیاں شروع کیں۔ جب اردگان نے اسرائیل پر مشرقِ وُسطیٰ کو غیرمستحکم کرنے کا الزام لگایا، ترکی نے اسرائیل کو آذربائیجان کو ہتھیاروں کی فراہمی کی شکل میں آرمیناؤں کے قتل عام کے لیے اپنی فضائی سرحدیں استعمال کرنے دیں۔
2022ء میں یاداشت کی کمزوری کا عارضہ تقویت پکڑگیا۔ ایسا لگتا تھا کہ اردگان صہیونیت کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دینے اور اسرائیل پر فوجداری عدالت میں مقدمہ چلانے سے متعلق اپنے بیانات بھول چکا تھا۔ اسرائیل اور ترکی کے راہ نما چودہ سالوں میں پہلی مرتبہ ستمبر 2022ء میں ملے، جس میں انٹیلی جنس کے اشتراک سمیت دفاعی تعاون کی بحالی کا فیصلہ ہوا۔ اس باہمی تعاون کی حقیقی وجوہات پر بحث کی جا سکتی ہے، مگر مشرقی بحیرہ روم میں تیل اور گیس کے ذخائر کے تلاش میں مشترکہ دلچسپی ایک اہم محرک ہوسکتا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اردگان کے لیے معاشی مفادات کا حصول اصولوں پر فوقیت رکھتا ہے۔
حالات جتنے بھی تبدیل ہوتے رہےاسرائیل کی جانب اردگان کی حکمت عملی تبدیل نہ ہوئی۔ جب حماس نے 7 اکتوبر2023ء کو حملہ کیا تو اردگان کا پہلا ردِعمل اسرائیل جوابی اقدامات میں انسانی حقوق کا خیال رکھنےکی تنبیہ کرنے کے بجائے حماس کے راہ نماؤں کو ترکی سے بے دخل کرنا تھا۔ جب غزہ پر اسرائیلی محاصرے کی مخالفت اُبھری، اردگان نے ایک بار پھر اسرائیل کو دہشت گرد قرار دے کر مذمت کی اور اس کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اس بنا پر اسرائیل اور ترکی دونوں کو اپنے اپنے سفیر واپس بلانا پڑے۔
اگرچہ غزہ میں جاری بحران نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں رکاوٹ پیدا کی ہے، مگر دونوں ملکوں کے درمیان معاشی تعلقات ابھی بھی قائم ہیں۔ باہم تجارت جاری ہے اور اس بار یوں لگتا ہے، جیسے اردگان ذاتی طور پر اس صورتِ حال کافائدہ لے رہا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق میں اردگان کے بیٹے احمد برک اردگان پر اسرائیل بھیجے جانے والے بحری جہازوں کے مالک ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ دوسرے لوگ جو اردگان کی پارٹی AKP کے قریب ہیں، جیسا کہ سابقہ وزیراعظم بینالی یلدرم کا بیٹا، بھی اس تجارت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
تاہم، میڈیا کی تصویر کشی کے برعکس، ترک اسرائیلی تعلقات فی الحال عملی طور پر ختم نہیں ہوئے۔ فرانس 24نامی اخبار کی سرخی کے مطابق "اردگان کے خطاب کے بعد ترک اسرائیلی تعلقات انتشار کا شکار ہیں۔" الجزیرہ کی ایک سرخی کے مطابق "غزہ جنگ نے ترک اسرائیل کے ہنگامہ خیز تعلقات کو دردخانے میں دھکیل دیا ہے۔"
لیکن جیسا کہ تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے، اردگان سٹیٹس کو (status quo) کو تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگرچہ رسمی سفارتی تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا ہے، لیکن دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ جاری رہتا ہے۔ فلسطین کی عوام کے ایک مضبوط وکیل ہونے کے بجائے، اردگان نے صہیونی قبضے کو جاری رکھنے اور اسرائیل کی خوش حالی کو بڑھاوا دینے کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ احادح
پہلے ہمیشہ کی طرح، امکان یہی تھا کہ جب غزہ پر اسرائیل کی بمباری ختم ہوگی تو ساتھ ہی اردگان کی قیادت میں ترکی اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے لگے گا۔
نوٹ! یہ مضمون Jacobinجرنل میں یکم جنوری 2024 کو شائع ہونےوالےمضمون" Erdogan is no friend palestine "کا اردوترجمہ ہے.