ملک میں موجود گروہیتوں کا جائزہ
سیاسی ، مذہبی اور اصلاحی جماعتوں کا ایک جائزہ
ملک میں موجود گروہیتوں کا جائزہ
عماد الحق، نوشہرہ
اگر ہم ملک میں موجود سرگرم جماعتوں کا جائزہ لیں ۔ تو ہم ان کو تین بڑی اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
1۔ سیاسی جماعتیں
2۔ مذہبی جماعتیں
3۔ اصلاحی جماعتیں
1۔ سیاسی جماعتیں
ان جماعتوں کا ملکی ترقی اور عوام کی اجتماعی فلاح کے حوالے سے جائزہ لیا جائےتو چند چیزیں ہم پر عیاں ہوتیں ہیں -
ان جماعتوں کا کردار ہمیں سامراج کے آلہ کار سے زیادہ نظر نہیں آ تا۔ ان کی تمام سیاسی اور معاشی پالیسیاں ملکی ترقی اور عوام کی اجتماعی فلاح میں اضافے کے بجائے سامراجی قوتوں کو علاقائی سطح پر مضبوط کرنے کا موجب بنتی ہیں۔ ان جماعتوں کی ناقص سیاسی پالیسیوں نے نہ صرف ہمیں ایک قوم نہ بننے دیا، بلکہ ہمارے معاشرے میں بداعتمادی اور نفرتوں کی نہ گرنے والی دیوار کھڑی کر دی ہے۔مختصر یہ کہ ان جماعتوں نےانگریز سامراج کی Divide&Rule پالیسی کو نہ صرف زندہ رکھا، بلکہ اس کو اور تقویت دی۔
ان جماعتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کی بدولت ملک میں امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ ملک میں غربت اور بےروزگاری بڑھ رہی ہے، جس کے نتیجے میں معاشرتی برائیاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ حکمران ہیں کہ عیاشیوں میں مست ملکی وسائل کا بےجا اور بےدریغ استعمال کر رہے ہیں۔ ملک کی معیشت کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دَبا کر پوری قوم کو معاشی غلام بنا دیا ہے۔
آج ظلم اور بربریت ہمارے معاشرے کے بنیادی اور نمایاں وصف اختیار کر چکے ہے۔ ٹیکسوں کی صورت میں معاشی استحصال ہو، یا انسان کی جان، عزت اور دیگر حقوق کا غیرمحفوظ ہونا، ہمارے معاشرے کی عمومی صورتِ حال ہے۔ معاشرے میں موجود ہر شخص کے حقوق کا تحفظ اور اس کو سستا انصاف فراہم کرنے کے لیے جو ادارے تشکیل دیے جاتے ، آج یہ جماعتیں انھی اداروں کے ذریعےعوام پر ظلم ڈھا رہی ہیں۔
ان جماعتوں کا بنیادی اصول خودغرضی اورمفاد پرستی ہے۔ یہ جماعتیں اجتماعی شعور سے عاری ہیں۔ ان کی تمام تر پالیسیاں ان کی اپنی ذات، خاندان اور مخصوص طبقے کی فلاح کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔ یہ جماعتیں سرکاری وسائل، جن پر سارے عوام کا حق ہے، ان کو صرف اور صرف اپنے ذاتی سیاسی اور معاشی مفادات کے لیے استعمال کرتی آ رہی ہیں۔
یہی جماعتیں جو جمہوریت کا نعرہ بلند کیے ہوئے ہیں، خود جمہوریت سے عاری نظر آتی ہیں۔ ہر ایک سیاسی جماعت کو ایک مخصوص خاندان نے اپنے گھر کی لونڈی بناركها ہے۔ ان جماعتوں میں کوئی اصول اور قانون نام كی چیز موجود نہیں ہے ۔ ان کے ہاں کوئی تربیت کا عمل نہیں۔ نچلے یا متوسط طبقے کا کوئی آدمی ان کا صوبائی یا قومی اسمبلی کا امیدوار نہیں بن سکتا، کیوں کہ اس کے پاس کمپین چلانے اور پارٹی سربراہان کے لیے دینے کو کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں سیاست کا اصول اگر ہے تو وہ صرف اورصرف سرمایہ یعنی پیسہ ہے،جس کے حصول کے لیے منافقت، دھوکہ، فریب، سب کچھ جائز ہوتا ہے۔
یہی جماعتیں معاشرے میں غیر مہذب کلچر کو فروغ دیتی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف عوامی جلسوں اور اسمبلیوں میں نازیبا زبان استعمال کرنا ان کا معمول بن چکا ہے،جس کے برے اثرات معاشرے پر بھی پڑتے ہیں۔
2۔ مذہبی جماعتیں
ہمارے معاشرے میں مذہبی جماعتوں کےکردار کا ایک مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔
یہ جماعتیں معاشرے میں اسلام کی خدمت کی دعوے دار ہیں،لیکن یہ جماعتیں اسلام کا ایک محدود اور جامد تصور پیش کرتی ہیں۔ ان کے ہاں اسلام صرف چند عبادات اور رسوم کا نام ہے۔ عصری تقاضوں سے عدم واقفیت اور سیاسی بصیرت کی کمی کی وجہ سے یہ جماعتیں، سیاسی جماعتوں کے قائم کردہ نظام ظلم کے معاون کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ فرقہ واریت اور متشدد کردار کے ذریعے نظام ظلم کی پالیسی Divide & Rule کو مزید تقویت بخشتی ہیں۔ یہ تمام مذہبی جماعتیں اپنی دھن میں مگن علاحدہ علاحدہ بغیر کسی مشترکہ مرکز کے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کا نتیجہ سامراج کو فائدے کی صورت میں مل رہا ہے۔
اِصلاحی جماعتیں
مندرجہ بالا جماعتوں کے علاوہ بعض جماعتیں انفرادی اِصلاح کا نظریہ لیے ہوئے معاشرے میں کام کر رہی ہیں۔ ان جماعتوں کا دعوی ہے کہ ہر فرد ٹھیک ہوجائے تو معاشرہ خود بہ خود ٹھیک ہوجائے گا۔ اس طرح کی جماعتوں میں بھی تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں ہے یہ صرف اِصلاحی بیانات پر انحصار کرتی ہیں۔ اگرچہ ان جماعتوں سے وابستہ لوگوں میں آئے روز اضافہ ملنے کو ملتا ہے، لیکن تربیت کے بغیر یہ جماعتیں سیاست سے دور رہ کر معاشرے کی اِصلاح کی دعوے دار ہیں۔ یہ جماعتیں نظام اور اس کے معاشرے کے ہر فرد پر اثرات سے عدم واقفیت کے سبب نظام ظلم کی غیرشعوری انداز میں معاونت کر رہی ہوتی ہیں۔
اور اگر دیکھا جائے تو درحقیقت یہ سب مختلف گروہ ہیں۔ ان کوجماعتیں کہنا ہی درست نہیں، کیوں کہ جماعت کا تو ایک واضح اور اجتماعیت پر مبنی نصب العين ہوتا ہے ، جب کہ ان میں سے کسی کے ھاں کوئی نصب العین نہیں، بلکہ محض چند ذاتی یا گروہی مفادات کی بنیاد پر مختلف گروہ بنے ہوے ہیں اور باہم دست و گریباں ہیں۔
لہٰذا اس وقت ضرورت ایک ایسی باشعور اجتماعیت کی ہے جو مظلوم عوام کی نمائندہ ہو اور دین حق کی تعلیمات اور دین و دنیا کی فلاح کی بنیادپر کام کرے اور پوری قوم کو بلا کسی تفریق کے اس نظام ظلم نجات دِلائے ۔