خلاف فطرت قانون اختیار کر نےکے نتائج واثرات
خلاف فطرت قانون اختیار کر نےکے نتائج واثرات
خلاف فطرت قانون اختیار کر نےکے نتائج واثرات
تحریر؛ اصغر خان سورانی بنوں
پودوں پر ماحول کے اَثرات کے ساتھ ساتھ انسان کے ذہنی اور روحانی نشوونما میں ماحول کے بارےمیں علیزہ کافی دلچسپی رکھتی تھی، آج اس نے پھر سوال کیا۔ کہنے لگی کہ ابو جان عموماً دیکھنے کو ملا ہے کہ عورت گھر کے کام کاج کرتی ہے اور مرد حضرات باہر کے کاموں پر جاتے ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا اس میں بھی ماحول کے اَثرات ہوتے ہیں یا نہیں؟
میں نے اس کو سمجھایا کہ بیٹا یہ تو آپ نے بہترین سوال کیا ۔ ہم دراصل قوانین فطرت کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ فطرت کا ایک سیدھا سادہ قانون ہے کہ سخت جان چیزوں کو ماحول کے سخت اَثرات کاعادی بنا دیا ہے اور ان کو باہر کے ماحول میں رکھا ہے، یعنی سخت جان چیزوں کو آؤٹ ڈور انوائرمنٹ میں رکھا اور نرم و نازک چیزوں کو ان ڈور انوائرمنٹ میں رکھا ہے، جس طرح پچھلے دِنوں آپ نے محسوس کیا کہ آؤٹ ڈور والے پودے اِن ڈور میں اور اِن ڈور والے آؤٹ ڈور میں خراب ہو گئے تھے، بالکل اسی طرح عورت اور مرد کی جسمانی ساخت کا معاملہ بھی ہے۔
مرد چوں کہ جسمانی لحاظ سے مضبوط ہوتے ہیں۔ اس کا سٹرکچر باہر کے کاموں کے لیے موزوں ہے تو وہ باہر کے ماحول میں بہتر کام کرسکتا ہے۔ اور عورت کی جسمانی ساخت مرد کے مقابلے میں نرم ونازک ہے، وہ سخت دھوپ، گرمی میں اور سخت سردی میں کام کاج صحیح طور پر نہیں کرسکتی ۔اس لیے اسلام نے بھی بغیر ضرورت کے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے اور بغیر ضرورت کے باہر جانے سے منع فرمایا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
ترجمہ:اور قرار پکڑو اپنے گھروں میں اور دکھلاتی نہ پھرو جیسا کہ دکھانا دستور تھا۔ پہلے جہالت کے وقت میں اور قائم رکھو نماز اور دیتی رہو زکوۃ اور اطاعت میں رہو اللہ کی اور اس کے رسول کی اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں اے نبیﷺ کے گھر والو!اور ستھرا کر دے تم کو ایک ستھرائی سے۔(القرآ ن- سورۃ نمبر33،الاحزاب آیت نمبر٣٣)
دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جبلی طور پر عورت کے اندر ایسا جذبہ پیدا کیا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کرنے، بچوں کو نشوونما دینے، گھر کے کاموں کو بہتر انداز سے سرانجام دینے، حوصلہ اور صبر سے کام کرنے میں مرد سے بہتر ہے۔ اس طرح مرد کو جبلی طور پر طاقت ور بنایا ہے، تاکہ وہ امور جن پر جسمانی مشقت اور طاقت و قوت کی ضرورت ہو وہ مرد سر انجام دے سکیں ۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جنسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نکاح جیسے مقدس بندھن کو جائز قرار دیا ہے،وہ لوگ جو جنسی ضرورت کو غلط طریقے سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، عزت دار اور مومن عورتوں کو ان سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے،اسلام نے اسی لیے عورتوں کو غیرضروری طور پر گھروں سے باہر جانے سے منع کیا ہے۔
اسی طرح ضرورت کے وقت اسلام نے عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے آپ کو چادر سے ڈھانپ لیا کریں، تاکہ ان کی پہچان ہو کہ یہ مسلمان عورتیں ہیں، عزت دار ہیں پھر وہ غلط نگاہوں سے محفوظ رہیں گی اور اسی طرح مردوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی نظروں کو نیچے رکھیں، تاکہ عورت ذات کو ان سے تکلیف نہ ہواور دونوں غیراخلاقی و گناہ کے کاموں سے محفوظ ہو جائیں ۔
اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب اور حدبندی قائم کی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کی دنیا مردوں کی دنیا سے بالکل جدا اور مختلف ہے۔ لیکن گھر اور خاندان کے باہر اس حد بندی اور حجاب کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک فطری تقاضا ہےجو مرد اور عورت کو ضرورت سے زیادہ اختلاط سے روکتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ قربت والے معاشرے، مرد اور عورت دونوں، بالخصوص عورت کے لیے تباہ کن نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔
اسلام چاہتا ہے کہ عورت کی عفت و پاکیزگی کی حفاظت ہونی چاہیے۔ عورت کی عفت و پاکیزگی فی الواقع دوسروں کی نظر میں (شہوانی خواہشات میں غرق انسانوں کی نظر میں) عورت کا احترام اور وقار قائم کرتی ہے۔ اسلام مردوعورت کی عفت و پاکدامنی کی خاص تاکید کرتا ہے۔ عفت صرف عورتوں سے مخصوص نہیں ہے، مردوں میں بھی پاکدامنی ہونی چاہیے۔ اس لیے مردوں کو بھی قرآن حکیم نےحکم دیا۔ ارشاد باری تعالی ٰہے:
ترجمہ: کہہ دے ایمان والوں کو نیچی رکھیں ذرا اپنی آنکھیں اور تھامتے رہیں اپنے ستر کو اس میں خوب ستھرائی ہے ان کے لیے بیشک اللہ کو خبر ہے جو کچھ کرتے ہیں۔( القرآن - سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 30)
عزیز دوستو! ہمیں چاہیے کہ ہم فطری قوانین کا احترام کریں۔ کیوں کہ یہ فطری پابندیاں ہمارے فائدے کے لیے اللہ تعالیٰ نے لگائی ہیں۔ لیکن سامراج (سرکش قوت)اور اس کی آلہ کار قوتیں اور نظام ہائے حیات اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے عورت ذات کو اپنی پراڈکٹس کی زینت بنانے اور ان کو فطری قوانین سے روگردانی پر مجبور کرتی ہیں۔اور یہی کام مردوں کے ساتھ بھی کرتے ہیں۔ لیکن ایک اچھے نظام میں عورت با پردہ ہو کر سماجی ذمہ داری نباہ سکتی ہے۔اور مرد حضرات اپنی خودی اور غیرت کو برقرار رکھتے ہوئے باہر کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔اس لیے اپنے اخلاق پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اپنے سماج کی درست حالت میں تبدیلی اور ترقی پر گامزن رہنا بھی ہماری اولین ذمہ داریوں میں شامل ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو۔