افسرشاہی میں شمولیت کا جنون
افسرشاہی میں شمولیت کا جنون
افسرشاہی میں شمولیت کا جنون
سفیان خان۔ بنوں
CSS/PMS میں جگہ بنانا اتنا مشکل اس لیے ہوتا ہے کہ یہ دراصل خطرناک مثلث(سول و مسلح افسر شاہی،سرمایہ دار، جاگیردار اور سیاست دانوں ) میں جگہ بنانا ہوتا ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ اس مثلث کا کام اِس خطے میں سامراج کے مفادات کاتحفظ ہے۔ چناں چہ اس مثلث میں جگہ بنانے کی اہلیت کا معیار سامراجی مفادات کے تحفظ کی ذہنیت کا موجود ہونا ہے۔ برٹش دور میں برصغیر کی civil services کے امتحانات برطانیہ میں منعقد ہوا کرتے تھے اور اِس میں ہندوستان کا کوٹہ 0 فی صد تھا، بعد میں یہ کوٹہ بہ مشکل 33 فی صد کر دیا گیا۔
نوجوان اشتہار میں "BA” پاس درکار ہے" دیکھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں، حال آں کہ اِن "BA”پاس میں سے کوئی ایسا بندہ چاہیے جو سامراج کے مفادات کی نگہبانی بہ خوبی جانتا ہو، چاہے اُس کی تعلیم محض BA ہی کیوں نہ ہو۔ "سامراج کا تخلیق کردہ یہ نظام کس طرح معصوم ارمانوں کو زندہ درگور کر دیتا ہے؟ ذیل میں اسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
اپنے عروج کے سنہرے 16 سال خرچ کرنے کے بعد پہلی ڈگری حاصل کر لی،امتحان میں شرکت کی ،ناکامی حاصل ہوئی، پھر شرکت کی، پھر ناکامی حاصل ہوئی،بار بار شرکت کی ، بار بار ناکامی حاصل ہوئی،یہاں ہر ناکامی کا اپنا ہی ذائقہ ہوتا ہے۔
بدصورت بیضوی شکل کے صفر (0) کا درد بڑا شدید ہوتا ہے۔مگر یہ درد تب پھیکا پڑ جاتا ہے، جب آپ تمام پرچے پاس کرتے ہیں، لیکن مضمون (Essay) کے پرچہ میں صرف 1 نمبر سے فیل کر دیےجاتے ہیں۔یہ درد بھی شکست خوردگی کی ایک عجیب مثال بن جاتا ہے، جب آپ تمام پرچے پاس کرکے بدبخت انٹرویو میں بازی ہار جاتے ہیں۔
انٹرویو میں شکت کا درد بھی کمزور پڑ جاتا ہے، جب آپ تمام مضامین پاس کرکے، انٹرویو کا انتہائی پیچیدہ مرحلہ کلئیر کرکے بھی merit میں جگہ نہیں بنا پاتے۔لیکن یہ سارے درد تب ماند پڑ جاتے ہیں، جب آپ سب کچھ عبور کرکے ایک اچھی پوزیشن حاصل کر لیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے آپ کی 3 دن کی زندگی میں تینوں دِن پوزیشن حاصل کرنے میں خرچ ہو چکے ہوتے ہیں، اور عین جشن سے پہلے موت کا فرشتہ آکر آپ کے جسم کو روح سے خالی کرکے آپ کو ایک بے جان شے بنا دیتا ہے۔'یقین مانیں یہ اُن تمام دردوں کی ماں ہے جو آپ نے ابھی تک چکھ لیے ہیں'
سامراج کے بنائے ہوئے اِس نظام کا فریب یہ ہے کہ یہ ہر سال اپنےانتخاب میں ایک دو امیدوار طبقہ عام سے اُٹھا کر اپنے مکروہ کرتب کو پاکیزہ کپڑوں میں ملبوس کر دیتا ہے۔ یوں ہر پاکستانی نوجوان کے دل میں بہترین کیریئر بنانے اور ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کی اُمید جاگ اٹھتی ہے۔لیکن افسر شاہی میں شمولیت کا یہ جنون ،بعض مرتبہ موت کا سفر بھی بن جاتا ہے۔
ایسی ہی ایک مثال بلال پاشا کی ہے۔ بلال پاشا کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک پس ماندہ علاقے سے تھا۔ غربت کی وَجہ سے گھر کی قریبی مسجد میں قائم مکتب سے پرائمری پاس کی۔میٹرک کے بعدانٹرمیڈیٹ کی تعلیم ایمرسن کالج ملتان سے حاصل کی ۔ بعد ازیں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے بی ایس ای کی ۔بلال پاشا نے پرائیویٹ سیکٹر سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ پولیس میں سب انسپکٹر کی ملازمت اختیار کر لی۔ اسی طرح مختلف گورنمنٹ اداروں میں اپنی خدمات انجام دے کر بالآخر 2018 ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بلال پاشا ایک خوب صورت سوچ کے ساتھ سسٹم کا حصہ بن گئے تھے۔ اُس کا مزاج دوسرے بیوروکریٹس سے خاصہ الگ تھا اور وہ سسٹم کوبہتر کرنے کے لیے کوشاں تھے، لیکن... شاید بلال کو معلوم نہ تھا کہ سسٹم میں رہتے ہوئے سسٹم کو نہیں بدلا جاسکتا اور نہ ہی ٹھیک کیا جاسکتا ہے، بلکہ اُلٹا سسٹم کو آپ کی حصہ داری سے مزید تقویت مل جاتی ہے۔ اور اگر کوئی سامراج کے بنائے ہوئے سسٹم میں رکاوٹ کا ذریعہ بن بھی جائے تو ایسی رکاوٹ کو دور کرنے میں سسٹم کے فقط یہ الفاظ ہی خرچ ہوتے ہیں کہ"ہم ایمان دار آفیسر بلال پاشا کی اچانک موت پر بے تحاشا دُکھ کا اِظہار کرتے ہیں" (REST IN PEACE, BILAL PASHA)
اِن حالات میں جب کہ نظام سامراجیت اور ظلم پر مبنی ہو،جو کالونیل دور کا چھوڑا ہو بوسیدا نظام ہو۔ اور اِس کے شر سے انفرادی اور اجتماعی زندگی مفلوج ہوگئی ہو، تو باشعور اجتماعیت کا فرض ہوتا ہے کہ رائج طاغوتی نظام کو ختم کرنے کے لیے اپنے شعور کو بلند کریں۔ خود کو تربیت یافتہ اور منظم جماعت میں ڈھالیں۔ تاکہ ہمارے معصوم ارمانوں کے قاتل اِس ظالم نظام کی موت یقینی ہو جائے۔