انسان کے ذہنی اور روحانی نشوونما کے لیے موزوں ماحول کی ناگزیریت
انسان کے ذہنی اور روحانی نشوونما کے لیے صحبت صالح ضروری ہے یہی درس ہمیں قرآن مجید اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے
انسان کی ذہنی اور روحانی نشوونما کے لیے
موزوں ماحول کی ناگزیریت
تحریر؛
محمد اصغر خان سورانی ، بنوں کے۔پی
حاشر
اور علیزہ جب سکول سے واپس آئے تو انھوں نے ایک منفرد مطالبہ کیا کہ ابو ہمارے لاؤنج
اور کمروں کے لیے بھی پودے لے آنا، تاکہ ہمارا گھر بھی پرنسپل صاحب کے آفس کی طرح خوب
صورت نظر آئے۔ بچوں کے مطالبے کو بھلا کون رد کر سکتا ہے۔ میں فوراً گیا اور قریب واقع
پودوں کی نرسری سے کچھ Indoor اور
کچھ Outdoor پودے
لے آیا۔ اور سب کو متعلقہ جگہوں پر رکھ دیا۔ کچھ دِنوں بعد بچوں کو گیلری میں رکھا
گیا ایک پودا زیادہ پسند آیا تو انھوں نے مجھ سے پوچھے بغیر اس کو لاؤنج میں رکھ دیا،
جب کچھ دِنوں بعد اس کے پتے مرجھانا شروع ہوگئے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ابو آپ اس
پودے کو چیک کریں اس کو کیا ہوگیا ہے۔ میں نے جب دیکھا کہ انھوں آؤٹ ڈور پودے کو ان
ڈور میں رکھا ہے تو میں نے ان کو سمجھایا کہ بچو!
اس
پودے کو زیادہ روشنی اور دھوپ کی ضرورت ہے جو کہ لاؤنج میں میسر نہیں۔ اس لیے یہ مرجھا
گیا ہے ۔ علیزہ نے فوراً سوال کیا کہ ابو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پودوں پر ماحول کا
بہت اَثر ہوتا ہے۔ حاشر چوں کہ عمر میں چھوٹا ہے، اس نے سوال کیا کہ ابو یہ ماحول کیا
چیز ہے؟ اور ہمارے اوپر بھی ماحول اَثرانداز ہوسکتا ہے یا نہیں ؟
میں
نے کہا بیٹا! یہ تو آپ نے بہت ہی عمدہ سوال کیا۔ جی ہاں! انسان کے ظاہر اور باطن دونوں
پر ماحول کا بہت گہرا اَثر ہوتا ہے۔ انسان جہاں بھی رہتا ہے اس کے اردگرد کی فضا اگر
خوش گوار ہے تو وہ جسمانی لحاظ سے بہتر محسوس کرے گا اور اگر اس کے گردوپیش کی فضا
غیرموزوں ہے تو یہ اس کی صحت پر اَثرانداز ہوسکتی ہے، مثال کے طور پر اگر کسی انسان
کو زیادہ عرصہ دھوپ نہ ملے تو اس کے جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہوسکتی ہے، جس سے اس کی
جلد اور ہڈیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔ اگر کوئی انسان دھواں اور گرد و غبار کی جگہ میں اُٹھتا
بیٹھتا ہے تو اس کے پھیپھڑے متاثر ہو سکتے ہیں۔
علیزہ
نے ان باتوں میں مزید دلچسپی لی اور پوچھا کہ یہ تو ظاہر پر اَثرات ہوگئے۔ انسان کے
باطن پر کیا اَثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
میں
نے ان کو بتایا کہ بچو! اگر آپ کے دوست اچھے ہیں تو آپ ان سے اچھی اچھی عادتیں سیکھ
سکتے ہیں مثلاً سچ بولنا، صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا، لوگوں کی مدد کرنا، غریبوں
کو کھانا کھلانا، بڑوں کی عزت کرنا، چھوٹوں پر شفقت کرنا وغیرہ ۔ لیکن اگر آپ برے دوستوں
کی صحبت اور ماحول میں رہتے ہیں تو ان کے بری عادات آپ کے ذہن پر چھا سکتی ہیں مثلاً
جھوٹ بولنا ، انسانیت سے نفرت کرنا، بڑوں کی بے عزتی کرنا، دھوکا دینا، چغل خوری کرنا
وغیرہ وغیرہ
حضرت
محمد مصطفی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ اچھے ہم نشین اور برے ہم نشین کی مثال عطر فروش
اور لوہار کی سی ہے۔ عطر فروش اپنا اَثر تمھیں ضرور پہنچاتا ہے یا تو تم اس سے خوش
بو خرید لیتے ہو یا پھر اس کی خوش بو سونگھ لیتے ہو۔ لوہار کی بھٹی یا تو تمھارا گھر
ہی جلا دیتی ہے یا تمھارے کپڑے جلا دیتی ہے۔ ( رواہ البخاری عن ابی موسیٰ)
صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور ﷺ کی صحبت میں رہ کر تربیت
حاصل کی اور ان سے اعلیٰ اخلاق سیکھ لیے اور اس تربیت،ہنر اور اعلیٰ اخلاق کی بنیاد
پر دنیا پر مسلمانوں نے ایک ہزار برس تک حکمرانی کی ۔
حضرت
امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ نعمان (نعمان ابن ثابت) ہلاک ہو جاتا، اگر اس نے امام
جعفر صادقؒ کی صحبت میں دو سال نہ گزارے ہوتے۔
حضرت
امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا فرمان ہے: انما الاخلاق بالاحوال لا بالعلوم ۔(
بے شک اخلاق کا تعلق ماحول اورصحبت سے ہے۔ علوم سے نہیں)
انگریزی
کا مقولہ ہے " A man is known by the company he
keeps" آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے ۔
اگر
آپ کسی کے اخلاق و کردار کو جاننا چاہتے ہو تو اس کے حلقہ احباب دیکھ لو کہ وہ کیسے
ہیں، آپ کو آسانی سے سمجھ آ جائے گی کہ وہ کیسی شخصیت کا مالک ہے۔
پیارے
بچو! اگر آپ اعلیٰ اخلاق و کردار اپنانا چاہتے ہیں اور اپنے ذہن کی نشوونما کرنا چاہتے
ہیں تو آپ کو ایسے دوستوں اور ماحول سے دور رہنا ہوگا جو آپ کے ذہن کو محدود کرسکتے
ہیں، کیوں کہ کندذہن لوگوں اور فرسودہ نظریات رکھنے والوں میں وقت گزارنے سے انسان
پر اُنہی کا رنگ چڑھنے لگتا ہے اور اسی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی ذہنی نشوونما
رُک جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔
اس
لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اجتماعی نظریات اورعمدہ اخلاق والے دوستوں کے ساتھ وقت
گزاریں، جن کے ذہن میں کل انسانیت کی ترقی کی سوچ موجود ہو۔ان کی معیت میں علوم سیکھیں
۔اپنی عملی مہارت بڑھائیں نئی ذمہ داریوں کے لیے خود کو تیار کریں۔ اپنی سکلز کو بڑھانے
کے لیے اجتماعی بھلائی اور شعوری سماجی تبدیلی کے لیے جتنا ممکن ہو ، نئے لوگوں سے
ملیں۔ نئے خیالات ، اعلیٰ سوچ وعمل کے حامل افراد سے امید و حوصلہ پیدا کریں۔ مطالعہ
کریں، تاکہ آپ مختلف تہذیبوں ، روایات،تاریخی اصولوں اور نظریات سے آشنا ہوسکیں۔
اس
سے کم از کم یہ ممکن ہو جائے گا کہ آپ ایک باشعور انسان بن کر ایک بہتر سماجی کردار
ادا کرسکیں گے اور معاشرے میں بہتر ماحول اور سماج میں امن، عدل اور معاشی خوش حالی
قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے اور اُخروی سعادت بھی حاصل کر پائیں گے۔