کامیابی کا راز
ظلم کو ختم کرنے کے لیے عدم تشدد کی بنیا د پرجدوجہد ضروری ہے جب تک انقلابی جماعت باشعور ،ترتیب یافتہ اور با صلاحیت نہ ہو تب تک ظالم سے نمٹنا بے سود ہے
کامیابی کا راز
تحریر؛ محمد اصغر خان سورانی ، بنوں
کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں ایک بدمعاش رہتا تھا۔ اس کے پاس دور جدید کا اسلحہ بھی تھا، اور اسلحہ چلانے کا ہنر بھی جانتا تھا۔ وہ اپنے گھر کے افراد کی ہر قسم کی ضروریات کا تو خیال رکھتا تھا، لیکن گاؤں کے سارے لوگ اس بدمعاش سے بہت تنگ تھے۔ گاؤں کے باقی لوگ اپنے آپ کو انتہائی پارسا اور نیک تصور کرتے تھے اور یہ سوچ اردگرد کے سارے گاؤں میں بھی پائی جاتی تھی۔ لیکن کسی گاؤں کے لوگوں میں یہ ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اس بدمعاش کا اکیلے مقابلہ کر سکیں۔ ہمت نہ بننے کی ایک وَجہ یہ بھی تھی کہ وہ جدید علوم حاصل کرنے کو کفرسمجھتے تھے اور اپنے آپ کو صرف ظاہری عبادات تک محدود رکھا ہواتھا۔ بدمعاش جب بھی کسی پر ہاتھ اٹھاتا تو باقی سارے لوگ صرف زبانی مذمت کر دیتے تھے۔ لیکن کسی میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اس ظالم سے نمٹ سکیں۔ کیوں کہ یہ سارے لوگ نہ تو منظم تھے اور نہ ہی ان کے پاس دور جدید کا علم وہنر تھا اور نہ ہی ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی تھی، اور تو اور ان کے پاس کھانے پینے کی اشیا اور دیگر ضروریات زندگی یا تو بدمعاش کے گھر سے بنے بنائی ہوئی آتی تھیں یا بدمعاش کے ساتھیوں کے قرضوں پر یہ لوگ اپنی زندگی گزار رہے تھے۔ نتیجتاً ظلم بڑھتا گیا اور لوگ خاموشی سے سہتے گئے۔ آپ یقیناً سوچتے ہوں گے کہ اس بدمعاش اور اس کے ساتھیوں سے نجات کا کیا طریقہ کار ہوگا۔ تو آئیے تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔
انسانی تاریخ پر نظر ڈالنے سےمعلوم ہوتا ہے کہ عملی زندگی میں تعداد اصل چیز نہیں ہے، بلکہ تربیت اصل ہے۔ ہر دور میں تربیت کے اپنے ضابطے اور طریقہ کار ہوتا ہے۔ یہ وہ فطری اصول ہے کہ جو کسی بھی اجتماعیت کوخواہ وہ تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ منظم اور تربیت یافتہ ہو تو وہ کثیر تعداد کے غیر تربیت یافتہ لوگوں پر غالب آسکتی ہے۔ یہی سبق ہمیں قرآن کریم، سنت نبوی ﷺاور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے ملتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ : بارہا تھوڑی جماعت غالب ہوئی بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے۔(سورہ بقرہ، آیت :249)
اسی طرح حضور ﷺنے جب 313 کی جماعت منظم کی تو وہ ہزار کی تعداد پر غالب آئی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں متعدد واقعات ایسے ملتے ہیں کہ ان کی منظم جماعت نے بڑے بڑے لشکروں کو شکست دی۔ ان کی یہ تنظیم ایک فکر و تربیت اور نظم و ضبط کے تحت ہوئی۔
تاریخ سے ہمیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ جب رحمانی قوت سے وابستہ لوگ اپنے رب کے احکامات پر من و عن عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور زندگی کو چند رسومات تک محدود کر دیتے ہیں تو طاغوتی قوت کے لوگ اپنا کام تیز کر دیتے ہیں، پھر یوں ہوتا ہے کہ رحمانی قوت والے لوگ ہر جگہ مظلوم نظر آتے ہیں۔ دور حاضر میں بھی یہی اصول کارفرما ہے کہ ظالم تعداد میں کم لیکن منظم و تربیت یافتہ ہیں، انھوں نے دور کے جدید علوم اور ٹیکنالوجی کو حاصل کیا ہے، اس کے برعکس مظلوم تعداد میں زیادہ لیکن منتشر، غیر تربیت یافتہ، بے شعور اور ظالم سے مقابلہ کے روادار نہیں۔
چناں چہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مظلوموں کو منظم ہونا چاہیے، ان کو قرآن کریم کے حکم ‘واعدو لھم ماآستطعتم’ (اپنی استطاعت کے مطابق دشمن کےمقابلے کی تیاری کرو) کے مطابق تیاری کرنی چاہیے اور یہ مقابلہ نظریہ، جماعت سازی، تربیت، ڈسپلن کے اصولوں پر ہو اور جب تک تیاری پوری نہ ہو عدم تشدد سے کام لینا چاہیے اور شعور کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے، اسی میں کامیابی ہے۔