تاریخ؛ قوم کی اجتماعی یادداشت
ایک گروہ کا قوم بننا اُس خطے کی حقیقی تاریخ سے جُڑے بغیر ممکن نہیں.
تاریخ؛ قوم کی اجتماعی یادداشت
تحریر؛ عرفان شہزاد، لاہور
حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒنے فرمایا کہ "فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں"۔
اوطان وطن کی جمع ہے ، یعنی ایک مخصوص خطہ جہاں بسنے والے ایک زبان بولتے ہوں،ان کا رہن سہن اور ان کو درپیش چیلنجز ایک جیسے ہوں، جن کے حل کے لیے وہ مشترکہ جدوجہد کرتے ہوں۔
قوم کی تعریف کرتے ہوئے پروفیسر عزیز احمد اپنی کتاب "برصغیر میں اسلامی کلچر" میں لکھتے ہیں:
"قوم مفلوک الحال، بے بس و منتشر افراد کے مجموعے کا نام نہیں ہے، وہ جبر و استحصال کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے، ناانصافیوں کے شکار افراد سے جنم نہیں پاتی، بلکہ "قوم تو ایک خاص روح، روحانی اصول کا نام ہے"۔ جس کا ایک قدم ماضی میں ہوتا ہے اور ایک حال میں۔ ایک طرف وہ یادوں کی مشترک، ثروت مند میراث کی مالک ہوتی ہے، دوسری طرف ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی گہری خواہش رکھتی ہے۔ یہ خواہش ایک ایسے معاشرے میں پروان چڑھتی ہے جو جبرواستحصال اور ناانصافیوں سے پاک اور عوام و خواص سب کو یکساں مواقع فراہم کر رہاہو۔ ایک قوم ایک عظیم استحکام کا نام ہے جو جذبہ ایثار سے وجود میں آتا ہے۔ ایسا ایثار جس کا مظاہرہ ماضی میں کیا جا چکا ہے اور جس کے لیے فرد آج، پہلے سے بھی زیادہ ایثار کے لیے تیار ہو۔ مشترک زندگی کے عمل کو جاری رکھنے کی رضامندی اور گہری خواہش سے حقیقی معنوں میں قوم جنم لیتی ہے۔
اِن عناصر کے فقدان کی وَجہ سے ہی ہمارا معاشرہ پٹڑی سے اُتر گیا ہے اور ہم جزبہ ایثار سے گریزاں، ذاتی مفادات کے بندی خانے میں محبوس ہو کر رہ گئے ہیں"۔
ایک گروہ کا قوم بننا اُس خطے کی حقیقی تاریخ سے جُڑے بغیر ممکن نہیں۔ تاریخ نام ہے قوموں کے اپنے مخصوص رُجحانات کی بنیاد پر کیے گئے فیصلہ جات سے حاصل ہونے والے نتائج اور تجربات کی یاد داشت کا۔ جیسے ایک انسان کی اِنفرادی یاد داشت اس کے مستقبل کی تعمیر کی بنیاد ہوتی ہے۔ اس کی یاد داشت میں اس کے ماضی کے کیے گئے فیصلے، تجربات اور نتائج محفوظ ہوتے ہیں، وہ انھی کی بنیاد پر اپنے حال اور مستقبل کو سنوارتا ہے اور اگر اس کی یاد داشت کھو جائے تو حال اور مستقبل میں دوسروں کے فیصلوں کا محتاج ہوتا ہے، بعینہٖ ایک قوم کی یاد داشت اس کی تاریخ ہوتی ہے، اگر اس قوم کو اس کی حقیقی تاریخ سے کاٹ دیا جائے تو اس کی اجتماعی دانش کھو جاتی ہے اور اس کا اپنی مجموعی صلاحیتوں سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ نتیجتاً مرعوبیت، تُھڑدلی، بزدلی، پست ہمتی اور غلامانہ سوچ جنم لیتی ہے اور قوم دوسروں کے فیصلوں کی محتاج ٹھہرتی ہے۔
آج جس خطے میں ہم آباد ہیں یہ اس برعظیم کا حصہ ہے، جس نے دنیا کو "ہندسہ" جیسی ریاضی کی کتاب دی۔ جو کہ الجبرا کی ایجاد کا سبب بنی۔ پہیہ اس خطے نے ایجاد کیا۔ انفینیٹی کا کانسپٹ یہاں کے لوگ جانتے تھے۔
سکندراعظم جس کو کوئی شکست نہ دے سکا، وہ گجرات کے راجہ پورس سے شکست خوردہ ہوا، اور اسی کے لگے زخم سے اس کی موت ہوئی۔
شہاب الدین غوری (1206-1149ء) نے غلاموں کی اتنی عمدہ تربیت کی کہ خاندانِ غلاماں کی 90 سال حکومت رہی۔ سلطان شمس الدین التمش جیسا حکمران پیدا ہوا، جس کی بیٹی رضیہ سلطانہ 3 سال تک حکمران رہی۔ یہ اس دور کی بات ہے جب باقی دنیا میں غلاموں اور عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی۔
منگول جن سے پوری دنیا کانپتی تھی، علاؤالدین خلجی نے ہندوستان پر ان کے سارے حملے ناکام بنائے اور ان کو شکست دی۔ مغلوں نے اس خطے کو اتنی ترقی دی کہ دنیا نے اس خطے کو "گولڈن سپیرو" کا لقب دیا۔ دنیا کے کل جی ڈی پی کا 25 فی صد تنہا یہ خطہ پیدا کرتا رہا۔ یقیناََ ہندوستان (موجودہ پاکستان، انڈیا، بنگلا دیش وغیرہ) کے پیداواری عمل کو کسی بہترین معاشی نظام کے ذریعے چلا کر ہی یہ ممکن رہا ہو گا۔
ہندوستان میں بننے والی شاہکار تعمیرات جن پر آج بھی ریسرچ کی جاتی ہے، سے یہاں کے سول انجینئرز، آرکیٹیکٹس، میٹریل انجینئرز کی تعلیمی قابلیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ یہاں کی تعلیم کا معیار کیا رہا ہوگا۔
بنگال کے بنے بحری جہاز جب لندن کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے تو طول و عرض سے لوگ دیکھنے آیا کرتے تھے۔
مغل سلطنت جب زوال پذیر تھی تو دہلی نے اس خطے کو شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ جیسا عظیم مفکر دیا، جنھوں نے نہ صرف برعظیم کی تشکیل نو کا قومی جمہوری انقلابی پروگرام دیا، بلکہ ولی اللہی جماعت بھی بنائی، جس نے آگے چل کر اس خطے کی آزادی کے لیے معرکہ بالاکوٹ، جنگ آزادی 1857ء اور تحریک ریشمی رومال جیسی پُرعزم تحریکات کو جنم دیا۔ یہی وہ مفکر ہیں، جنھوں نے دنیا میں مشین کی ایجاد پر معاشرے میں جنم لینے والے نئے پیداواری رشتوں کو بھانپتے ہوئے معاشی مسائل کا حل ایڈم سمتھ اور کارل مارکس سے پہلے پیش کیا، اور اس وقت ہندوستان میں جمہوری طرزِحکومت کی بات کی، جب یہاں بادشاہت قائم تھی۔
ہمارے تعلیمی نظام میں اس خطے کی کامیابیاں اور یہاں کے مقامی ہیروز کا تعارف موجود نہیں ہے۔ یہاں کی مکمل مقامی تاریخ ہمیں نہیں پڑھائی جاتی۔ ہمارے بڑوں کی کیا کیا achievements تھیں؟ ان کی قربانیاں کیا تھیں؟ ہمارے حقیقی مقامی ہیروز کون تھے؟ یہاں کے غدار کون تھے؟جن کی بدولت یہاں غلامی کی سیاہ رات طویل ہوئی؟ یہاں کا تعلیمی، سیاسی اور معاشی ڈھانچہ کیا تھا؟ ان تمام حوالوں سے ہمارا تعلیم نظام خاموش ہے اور یہی مجرمانہ خاموشی آج کی نسلوں کے سیاسی اور معاشی قتل کی ذمہ دار ہے۔
یہاں کے باشندوں کی اجتماعی یاد داشت کو 1906 ءسے شروع کر کے 1947 ءتک مکمل کر دیا جاتا ہے، جب کہ یہاں کی تاریخ تو حضرت آدم علیہ السلام کے اس خطے (سری لنکا، حصہ متحدہ ہندوستان) میں آمد سے شروع ہوتی ہے اور مسلمانوں کی باقاعدہ تاریخ سلطان محمودغزنوی کی ہندوستان آمد 1001ء سے شروع ہوتی ہے۔
تاریخ سے اسی ناواقفیت کے نتیجے میں ہی ہمارے احساسات، جذبات اور مقاصد اس خطے سے نہیں جُڑ پاتے۔ نتیجتاََ ہم اس اجتماعی ایثار سے محروم ہیں جو ایسے استحکام کے لیے ناگزیر ہے، جس کو "قوم" کہتے ہیں۔