قلم کی بے توقیری اور سامراجی شکنجے
قلم کی بے توقیری اور سامراجی شکنجے
قلم کی بے توقیری اور سامراجی شکنجے
تحریر؛ مدثر علی، لاہور
پاکستان کو وجود میں آئے 76سال ہوگئے۔ ہم رہتے تو ایشیا میں ہیں، لیکن اس ملک کی اشرافیہ کی ذہنی حالت یہ ہے کہ رہنے سہنے،چلنے پھرنے، اُٹھنے بیٹھنے، پڑھنے لکھنے، میں اپنے آقاؤں کی تقلید کرتے ہیں اور ہمہ وقت یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے طرزِعمل سے بھی یورپین طرز کی جھلک نظر آئے، جس سے یہ لوگ پاکستان کے لوگوں سے مختلف و منفرد نظر آئیں۔
اس فرق کو مستقل طور پر قائم رکھنے کے لیے ایسا تعلیمی نظام رائج کیا گیا تاکہ عام لوگوں کی سوچ پست رہے ۔ان میں ترقی پسندی نہ ہو اور ایک مخصوص دائرے میں بند رہیں ۔
لارڈ میکالے کا 1835ء کا تعلیمی ایکٹ / ضابطہ جس کا مقصد یہاں صرف اور صرف تاج برطانیہ کی حمایت اور تابع داری کی خاطر افرادی قوت کا پیدا کرنا تھا اور حکومت کرنے کے لیے یہاں کے اداروں میں ان کی مرضی کے مطابق افراد پیدا کرنے کا تھا، تاکہ اس سے وہ ہندوستانی معاشرے میں اپنی حمایت کے لیے پڑھے لکھے لوگوں کے ذریعے عوام کے اذہان کو بدل کر اپنے حق میں استعمال کرسکیں، جس سے ان کی لوٹ مار کو جواز اور پردہ پوشی میسر ہو سکے۔
اس مقصد کے حصول کو پست تعلیمی نظام کے علاوہ زرد صحافت کے ساتھ بھی منسلک کیا گیا۔ہمیں آج ایک بات واضح نظر آئے گی کہ موجودہ صحافت پر ملٹی نیشنل کمپنیوں، سامراج اور سرمایہ داروں کا اثر و رسوخ قائم ہے۔ ان کمپنیوں اور سامراجی ایجنٹوں کی اجارہ داری سے عوامی اذہان کو تیار کرنے کے لیے آج کے تجزیہ نگار، لکھنے اوربولنے والے ذاتی مفادات کےاسیر ہوکر عوامی رائے کو ان کے حق میں ہموار کرتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں جس طرح بڑے بڑےنام نہاد تجزیہ نگار اینکر پرسنز اور سامراجی دانش ور اس ملک کے اصل مسائل پر توجہ دینے کےبجائے حکمرانوں کی بداعمالیوں کی پردہ پوشی اور ان کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے ہیں۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ لوگ اشرافیہ اور سامراج کے حق میں دن رات الفاظ کے گورکھ دھندوں اور سامراجی غلامی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
یہ تمام پیداوار لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی اور سوشل پولرائزیشن کا نتیجہ ہے کہ جس میں یہ ضمیرفروش صحافی سامراجی نظام کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
اگر قلم جھوٹے ،مکار ، اور آلہ کاری کا کردار ادا کرنے والے نام نہاد دانش ور کے ہاتھ میں آجائے، تو وہ سامراجی نظام کی تقویت اور اس کی زندگی بڑھانے ہی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ہمیں آج کے دور میں ایسے کئی بکے ہوئے قلم نظر آتے ہیں جو کہ دولت و شہرت کی خاطر اشرافیہ کی چاپلوسی کرتے ہیں۔ ان کا اعتماد عوامی حلقوں میں قائم کرنے کی بھرپور کوشش میں مشغول رہتے ہیں ۔
آج غریب سے سستی تعلیم کے حصول کاحق بھی چھینا جارہا ہے اور سکولوں کو این جی اوز کے سپرد کرکے تعلیم مزید مہنگی کرکےظلم کے راستے کھولے جارہے ہیں ۔اس پالیسی سے مزید جہالت کی راہ ہموار کر کے اشرافیہ کی عام عوام پر اجارہ داری کو مزید بڑھاوا ملےگا، جس سے غلامی اور ظلم کی رات مزید لمبی اور اندھیری ہوگی اور نام نہاد میڈیا اور دانش ور طبقہ اشرافیہ کی عیاشی کو مزید وسعت دینے کا باعث ہوگا.