کہانی دو بھائیوں اور ایک بیٹے کی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • کہانی دو بھائیوں اور ایک بیٹے کی

    ہندوستان کی تقسیم کی کہانی اور پاکستان کا سامراج کے ساتھ تعلق, بنگلادیش کا معرض وجود میں آنا اور پاکستان کی موجود ہ صورتحال

    By Asghar Surani Published on Sep 25, 2023 Views 626
    کہانی دو بھائیوں اور ایک بیٹے کی
    تحریر: محمد اصغر سورانی۔ بنوں 

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بستی میں دو بھائی ایک مشترکہ گھر میں عرصہ دراز سے امن و اطمینان سے رہ رہے تھے اور گذربسر بھی بہت اچھی تھی، زندگی خوش حال اور وقت سکون سے گزر رہا تھا۔ اسی دوران ایک لالچی و خودغرض شخص دور دراز سے اس بستی میں کاروبار کی غرض سے آگیا۔ اس نے کچھ عرصہ تو کاروبار کیا، لیکن اس دوران اُس نے اس بستی اور ان دونوں بھائیوں کے رہن سہن، اتفاق اور خوش حالی کا جائزہ بھی لیتا رہا اور ایک دوسرے کے درمیان اتحاد و اتفاق کو ختم کرنے کے لیے نفرت کے بیج بھی بوتا رہا۔ اس شاطر شخص نے ان کے آپس میں اُلجھنے کے کافی داؤپیچ استعمال کیے۔ آخر اس کی مکاریوں نے رنگ دکھایا اور بھائیوں کی توتو میں میں اور آخرکار لڑائی بھڑائی ہونے لگی، جس سے اس بیرونی تاجر نے خوب فائدہ اٹھایا اور خوب لوٹ مار کی، گھر پر اور خوراک کے تمام وسائل پر بھی تسلط حاصل کرلیا۔ 
    بڑی جانفشانی کے بعد دونوں بھائیوں نے اس بیرونی تاجر سے خود کو آزاد تو کروایا، لیکن اس مکار کی چالاکیوں میں آکر چھوٹے بھائی نے گھر کا بٹوارا کروایا، بڑا بھائی اس کی مکاریوں کو سمجھتا تھا، لیکن چھوٹے کے آگے اس نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔ چھوٹا بھائی اسلامی ذہن کا مالک تھا، اس نے اپنے حصے کی زمین کو خودساختہ طور پر پاک اور ناپاک میں تقسیم کیا، اور اس پاک زمین کے ٹکڑے پر گھر بنا کر خاندان بسایا۔ گھر کے ایک حصہ پر لالچی اور شاطر شخص نے بعد میں فیصلہ کرنے کا کہہ کر کہ دونوں بھائیوں کو مزید اُلجھن میں مبتلا کردیا۔ 
    یہ شاطر اپنے آپ کو وقت کا بہت بڑا معالج گردانتا رھا ہے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے، چناں چہ چھوٹے بھائی نے بیمار ہونے پر علاج معالجہ کے لیے اسی شاطر شخص کو اپنا خاندانی طبیب چن لیا۔ گو کہ وہ طبیب بہت اعلیٰ کلاس کا تھا، اپنے گھر کے بیماروں کے لیے بہت اعلیٰ قسم کی دوائیاں لکھتا تھا، آج بھی اس کے گھر میں کوئی بیمار نہیں ہے، لیکن چوں کہ وہ یہاں کا مقامی نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کے مقامی مسائل کا ادراک رکھتا ہے، لہٰذا چھوٹے بھائی کو پرانی دوائیوں پر قائم رہنے پر اصرار کرتا رہا۔اکثر امراض کا سبب تو اس کے بڑے بھائی کو قرار دیا جاتا، یوں چھوٹے بھائی کو بھی یقین ہوگیا کہ ہر مرض کا سبب اس کا بڑا بھائی ہے۔ اس کش مکش کے دوران بستی کے باقی لوگ سماجی ترقی و تحقیق میں بہت آگے نکل گئے، یہاں تک کہ اس کا بڑا بھائی بھی اس سے بہت آگے نکل چکا تھا۔ بستی میں رہنے والے عزیز و اقارب نے چھوٹے بھائی کو سمجھایا کہ آپ طرح طرح کی بیماریوں میں گھر چکےہو۔ کسی دوسرے طبیب سے علاج کروالو اور کسی اور میڈیکل سٹور سے دوائی خرید لو، تاکہ ہمیشہ کی پریشانیوں سے نجات مل جائے۔ لیکن معالج کو تبدیل کرنا اس کے لیے مشکل تھا۔ کیوں کہ ایک تو شاطر طبیب بھی اجازت نہیں دے رہا تھا دوسرا یہ کہ وہ ان لوگوں کی صحبت کا عادی ہو چکا تھا ان لوگوں کے چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
    ایک دن گھر میں کسی بات پر جھگڑا ہوا، اور اس کے نتیجے میں اس کا بڑا بیٹا جو پہلے ہی سے برسرروزگار تھا، وہ بھی اپنے بابا جان کے مقدس گھر سے جدا ہوگیا اور الگ بنگلا بسا لیا۔ آج اس کا بھی بستی میں ایک نام ہے، لیکن بابا جی کا اَب یہ حال ہے کہ بستی میں اس کو کوئی قرض دينے کو تیار نہیں اور ان کو مجبوراَ، اپنے طبیب کے غنڈوں سے سخت شرائط پر دو چار آنے لینے پڑتے ہیں۔ اس کا بھی ایک حصہ وہ پرانے قرض کی ادائیگی میں خرچ کر دیتا ہے، اکثر اوقات گھر میں فاقے ہوتے ہیں، مگر بابا جی اپنی ہی عیاشیوں میں پڑا رہتا ہے، گھر کے کچھ افراد نشہ و چوری کے عادی ہیں اور اکثر و بیش تر گھر سے ضروریاتِ زندگی کی قیمتی اشیا چوری کر کے اونے پونے داموں فروخت کر دیتے ہیں۔ ہمسایہ کے وہ لوفر بیٹے بھی آج ان کے گھر کے تہذیب یافتہ لوگوں سے لاکھ بہتر ہیں۔
    لیکن ادھر شاطر طبیب اسی فرسودہ نسخوں اور فرسودہ طریقوں سے چھوٹے بھائی، جو آج باباجی بن چکاہے، کاعلاج کروا رہا ہے اور گردوپیش کی تبدیلیوں سے شترمرغ کی طرح ریت میں منہ چھپائے بیٹھا ہے۔ بستی کے کسی معلم نے علم وشعور کی بات کی کہ دیکھو؛ تم مریض ہو کر چھیتر سالوں سے اس دوست نما دشمن معالج کے سارے نسخے آزماچکے ہو، اس شاطر حکیم کے سارے نسخے زائدالمعیاد ہیں۔ آپ کو نئے اور آزمودہ نسخے کی ضرورت ہے، مگر نہ صرف باباجی، بلکہ خاندان کا کوئی فرد بھی اس بات کو سننے اور عمل کرنےکے لیے تیار نہیں، شاطر حکیم اسے اپنے شکنجے میں مزید کسنے کے لیے ادھر ادھر کی دوائی لاکر پلانے پر مصر ہے، دوسری طرف مریض قریب المرگ ہے۔
    اَب یہ معمہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ اس کا کیا حل نکالتے ہیں؟
    Share via Whatsapp