پاکستانی اشرافیہ کی لوٹ مار،عوامی امیدیں اور باشعور افراد کی ذمہ داریاں
اس سسٹم کا ہر نیا آنے والا سربراہ پہلے والے پیٹرن پر چلتا ہے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کرکے ایک دن اپنے اثاثوں سمت ملک چھوڑ کر نکل جاتاہے
پاکستانی اشرافیہ کی لوٹ مار،عوامی امیدیں اور باشعور افراد کی ذمہ داریاں
محمد اصغر سورانی۔ بنوں
دنیا کی بیدارمغز اقوام محنت اور جہد مسلسل سے کہیں سے کہیں کیوں نہ پہنچ جائیں۔ وطنِ عزیز کی اشرافیہ کالونیل دور سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتی اور کیوں نکلے؟ کیوں کوئی اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارے؟
جب سارا سسٹم اور اس کے کل پرزے اسی ایک فی صد اشرافیہ کی خدمت گزاری میں مگن ہوں اور وہ خود اپنے اہل و عیال کے ہم راہ عیش و عشرت میں مصروف ہوں ۔ دوسری طرف سسٹم نے مہنگائی و معاشی بدحالی اور بدامنی کی ذمہ داری کی تختی صرف بے شعور اور روپے پیسوں کی دل دادہ نام نہاد سیاست دانوں کے گلے میں لٹکائی ہو ئی ہے۔
اس سسٹم کا ہر نیا آنے والا سربراہ پہلے والے کے طریقے پر چلتا ہے ۔عوام کی Atraction لیتا ہے ۔ اکانومی کی بابت سہانے خواب دکھاتا ہے۔قرضوں سے گلوخلاصی کی نوید سناتا ہے اور توجہ ہٹانےکے لیے ملک کے بڑے بڑے بزنس ٹائیکون سے ملتا ہے ۔عوام کو مطمئن کرنے کےلیے بہترين شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات میں اور مختلف چینلز پر مصروفِ کار نظر آتاہے۔ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے برائے نام بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کرتا ہے، میڈیا پر کچھ پکڑ دکڑ دکھائی جاتی ہے، جس سےعوام میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اسی طرح کرپشن کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دینے کے اعلانات ہوتے ہیں۔ ایک فلم کی طرح عوام میں سسپینس بڑھ جاتا ہے، لیکن اقتدار میں انھی لوگوں کو شریک کرتا ہے یا کروایا جاتا ہے، جن کے خلاف سخت کارروائی کی جانے کی نوید سنائی گئی تھی۔
اور پھر کیا ہوتا ہے؟ نئے طریقہ واردات کے ساتھ لوٹنے کا عمل شروع جاتا ہے۔ ترقیات کے نام پر قرضے لیے جاتے ہیں اور اسی قرض کے پیسوں میں کرپشن کا نیا بازار گرم ہو جاتا ہے۔عوام پر نئے ٹیکسز لگ جاتے ہیں ۔اسی طرح اسمگلنگ کے کاروبار کو پہلے کی بہ نسبت مزید بڑھایا جاتا ہے، لیکن جو پہلے والے کر گئے تھے، ان کے بارے بیانات جاری کیے جاتے ہیں اور خود مؤثر انداز سے دوبارہ کرپشن شروع کر لیتے ہیں۔
اس اشرافیہ طبقے میں صرف ایک طبقہ تن تنہا شامل نہیں، بلکہ وطنِ عزیز کے جاگیردار ، سرمایہ دار، بے ضمیر سیاست دان، بڑے بڑے ججز اور ملٹری و سول بیوروکریٹس اور اَب تو میڈیا بھی یا تو برابر کے شریک ہیں یا پھر اس ظلم کے ذمہ دار ہیں۔
کیوں کہ مراعات لینے میں یہ سب ایک دوسرے سے بازیاں لیتے رہتے ہیں۔ اور پھر اقتدار یا باری ختم ہونے پر اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے پاکستان سے باہر مستقل طور پر اپنے خاندان اور اثاثوں سمیت منتقل ہوجاتےہیں اور بے چارے عوام اُمیدوں سمیت قعر مذلت میں گر جاتے ہیں ۔ ان کے جانے کے بعد دَبی دَبی آوازوں میں کرپشن و اثاثوں کی بابت کہانیاں آتی ہیں ، احتساب کی گردان شروع ہوجاتی ہے، مگر یہ آواز چند دِنوں میں دَب جاتی ہے، یا دَبا دی جاتی ہے۔ اور کہانی پھر نئے سرے سے شروع ہو جاتی، ایک نیا وائسرائے آکر سارے تماش بینوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ تماش بین، تماش بین ہی ہوتے ہیں وہ پرانے وائسرائے کو ان کے کیے گئے وعدوں کو اَور دکھائے جانے والے سنہرےخوابوں کو بھول جاتے ہیں، بلکہ نئے واقعات رونما کرکے بھلا دیا جاتا ہے۔ حال آں کہ ان کے آباؤ اجداد نے ان تماش بینوں کو کفن چور کی کہانی یاد کروائی تھی، مگر پھر بھی یہ کفن چور کو اچھا سمجھتی ہے کہ وہ کفن چور کے بیٹے کی طرح کفن اُتار کر ڈنڈا تونہیں ٹھوکتا۔
میرے عزیز دوستو: ایسی نازک صورتِ حال میں اشرافیہ سے اُمیدیں رکھنے کے بجائے سوسائٹی کے باشعور افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی نئے نسل کو اس چوہے بلی کے کھیل سے نکال باہر کریں اور اپنی صلاحیتیں اس پتلی تماشا میں برباد نہ کریں۔بلکہ ماضی کے تلخ تجربات سے کچھ سیکھ کر مستقبل کے لیے ایک اعلیٰ نظریہ و نصب العین پر جماعت تیار کریں، تاکہ وہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے والے سلسلے کو ایک عظیم تحریک کے ذریعے بدل دیں اور تماشا ختم کریں اور پھر یوں ہوگا کہ یہ ظالم اور متکبر لوگ حقیقی احتساب کے شکنجے میں ہوں گے اور پھر کبھی برسر اقتدار نہیں رہیں گے ۔ اور درست حکمت عملی سے دور جدید کے تقاضوں اور وسائل سے قوم کو محروم رکھ کر طبقاتی مفادات کے حصول کا کھیل ختم ہوگا اور جہانِ نو تشکیل پائے گا۔