مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے ایک خواب کا تذکرہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے ایک خواب کا تذکرہ

    مولانا سندھی کے ایشیاٹک فیڈریشن کا تصور اگر حقیقت بن جاتا تو بر عظیم کی موجودہ سیاسی،اقتصادی، سماجی صورتحال کیا ہوتی۔

    By جہانزیب اکرم Published on Sep 23, 2023 Views 465

    مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے ایک خواب کا تذکرہ

    ترجمہ : جہانزیب اکرم، فیصل آباد 


    عرض مترجم: ”درج ذیل تحریر ڈاکٹر شاہ زیب خان کے2007ء میں روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر شاہ زیب خان پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ انگریزی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کی دلچسپی کے موضوعات میں نوآبادیاتی دور کا مطالعہ اور پاکستان میں علوم کو مغربیت (Euro-Centrism)سے آزاد کروا کر مقامیت سے جوڑنے کی جدوجہد شامل ہیں۔اس حوالے سے آپ نےدیگر اساتدہ کے ساتھ مل کر” انک فورم“ (Indigenizing Knowledge Forum)کے نام سے ایک پلیٹ فارم قائم کیا ہے، جس کے ماتحت ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجز میں جدید نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے کے حوالے سے سیمینارز ، کتابوں کی تعارفی نشستیں اور مباحثوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ “

    تاریخ مائیکروسافٹ ایکسل کی سپریڈشیٹ کی طرح ہے، جہاں ایک عددی اندراج (entry) کو تبدیل کرنے سے بعد کے سیلز میں موجود سب کچھ بدل جاتا ہے۔ مجھے اس بے موقع موازنے کے بارے میں سوچنا پڑا۔ جب میں نے ڈان اخبار میں عرفان حسین کے مضمون ”Games Historians Play “یعنی” وہ کھیل جو تاریخ دان کھیلتے ہیں“ کا مطالعہ کیا، جس میں انھوں نے اس سوال پر بحث کی تھی کہ اگر 1947ء میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ 

    اگرچہ میں باقاعدہ طور پر تربیت یافتہ مؤرخ نہیں ہوں، لیکن میں تاریخ دانوں کے اس کھیل کو کھیلنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ چناں چہ میں نے پاک بھارت تاریخ کی کتابوں کا اپنا مختصر سا مجموعہ کھولا۔ میں خوش قسمت تھا کہ مجھے ایک بہت قابلِ قدر چیز سے واسطہ پڑا جو میں آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہوں گا۔ 1924ء میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ ، جو ایک انقلابی عالمِ دین، مفکر اور جدوجہدِ آزادی کے سرگرم کارکن تھے، نے ترکی سے ایک دستاویز شائع کی جسے ”سروراجی منشور “کا نام دیا گیا، جس میں نوآبادیاتی دور سے ممکنہ آزادی کے بعد ہندوستان کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کا ایک حل پیش کیا گیا تھا۔ اگر اِس حل پر عمل کیا جاتا تو ہندوستان اور پاکستان کا مستقبل کیسے بدل سکتا تھا؟ انھی امکانات پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔

    اِس سے پہلے کہ میں اِس دستاویز کی سیاسی ، سماجی اورمعاشی جہتوں کو آپ کے سامنے رکھوں، میں اِس آئینی خاکے کے پسِ منظر سے متعلق کچھ معلومات دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ یہ دستاویز ترکی میں ستمبر 1924ء میں اردو زبان میں شائع ہوئی تھی۔ بعد میں اسے مئی 1925ء میں مختلف ہندوستانی جرائد میں شائع کیا گیا ۔اپنی اشاعت کے ساتھ ہی اس پر برطانوی حکومت نے پابندی عائد کردی۔ پھر 1926ء میں اس کا انگریزی ترجمہ تھوڑی سی ترامیم کے ساتھ دنیا کے بہت سے ممالک میں شائع کیا گیا۔ فروری 1956ء میں یہ دستاویز انجمن ترقی اردو کراچی کے ششماہی جریدے ”تاریخ و سیاست“میں ”مولانا سندھیؒ مرحوم کا منصوبہ“ کے عنوان سے شائع ہوئی۔

    یہ دستاویز سندھی زبان میں مولانا سندھیؒ کے مخصوص اندازِ تحریر میں لکھی گئی ہے، جس میں مولانا سندھیؒ لسانی قومیتوں کی بنیاد پر خود مختار ریاستوں (states/provinces within a federation) پر مشتمل ایک نیم اشتراکی فیڈریشن کا تصور پیش کرتے ہیں۔ اُن کی دستاویز میں جاگیرداری اور بے لگام سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور معاشی مساوات پر مبنی وفاق کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ وہ براعظم ایشیا میں ایک بڑی فیڈریشن کی پیش گوئی بھی کرتے ہیں اور اسے ”ایشیاٹک فیڈریشن“کا نام دیتے ہیں جو اُن کے مطابق خطے کے تمام سامراج مخالف ممالک کو متحد کرے گی، تاکہ وہ حقیقی معنوں میں سامراج سے آزادی حاصل کرسکیں۔ 

    اُن کایہ تصور اُس دور کے حوالے سے نیا تھا، کیوں کہ انھوں نے ایشیاٹک فیڈریشن کے اندر علاقائی بنیادوں پرمعاشی تعاون پر زور دیا۔ اگر یہ دستاویز شنگھائی تعاون تنظیم کی حالیہ پیش رفت کے پسِ منظر میں پڑھی جائے تو مزید دلچسپ اور آج کی دنیا سے متعلق ہو جاتی ہے۔

    اگر ہندوستان اور پاکستان ایک ساتھ رہتے اور یہ دستاویز آزاد ”انڈو پاک“ہندوستان کا آئین ہوتی تو علاحدگی پسند جذبات اور تحریکیں، جو ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے خطرہ ہیں، بالکل ہی ختم ہوچکی ہوتیں۔ تمام سیاسی اکائیاں خودمختار ہوتیں، کیوں کہ اس دستاویز میں لسانی قومیت کی بنیاد پر علاقائی تقسیم کی گئی تھی اور اِس منصوبے کے مطابق بننے والی اکائیوں میں کسی ایک مذہب کو ہی اکثریت حاصل ہوتی ۔اِس طرح ہر علاقائی اکائی اپنے عوام کی امنگوں کےمطابق اپنے اپنے آئین کا مسودہ تیار کرنے میں آزاد ہوتی۔ یہ یونٹ ”انڈین فیڈرل ریپبلک“یعنی” ہندوستانی وفاقی جمہوریہ“ کا حصہ ہوتے، جس میں صرف کرنسی اور دفاع کے شعبے وفاقی سطح پر سنبھالے جاتے جب کہ باقی معاملات میں علاقائی اکائیاں مکمل طور پر آزاد ہوتیں ۔

    براعظم ایشیا کے اتنے بڑے اور اہم علاقے (برعظیم پاک وہند)کے اندرونی استحکام کی وَجہ سے پورے ایشیا اور افریقا پر مثبت اَثرات مرتب ہوتے ۔ چوں کہ اس فیڈریشن کی بنیاد سماجی مساوات پر مبنی ہوتی، تو لازمی طور پر اِس نے یو ایس ایس آر (سوویت روس) اور ماؤنواز چین کوبھی اپنی طرف متوجہ کیا ہوتا۔ اقتصادی پالیسیوں میں مماثلت نے علاقائی سیاست کو ہم آہنگ کیا ہوتا۔افغانستان کی موجودہ تباہ حال زمین اِس تباہی کے بجائے ہمسایہ ممالک سے سیاحوں کو اپنی تاریخی یادگاروں کی طرف راغب کررہی ہوتی۔ مشترکہ ہندوستان میں لسانی بنیادوں پر بننے والی مسلم اکثریتی اکائیوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مشرق ِوسطیٰ کے عرب ممالک کو معاشی اور تجارتی تعاون کے بے شمار معاہدوں پر آمادہ کیا ہوتا۔ اِس طرح یہ خطہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے”ایشیاٹک فیڈریشن“ کے اُس خواب کے قریب پہنچ گیا ہوتا، جہاں تمام رکن ممالک میں مشترکہ کرنسی، پاسپورٹ فری سفر اور انتہائی سستی معیاری تعلیم ہوتی۔ (افسوس کی بات یہ ہے کہ سامراجی سیاست کی کامیابی کی وَجہ سے ایشیا اور افریقا کے بیش تر ممالک مستقل بدامنی اور انتشار کا شکار رہے ہیں، جب کہ یورپی ممالک تاریخی طور پر ایک دوسرے کے بدترین دشمن ہونے کے باوجود یورپی یونین بنا کر اپنی سیاسی اور معاشی قوت کو مضبوط بنارہے ہیں۔ (ع ۔م) 

    اِس فیڈریشن نے اپنی روادار اور علم دوست معاشروں کی مدد سے ہمسایہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ جمہوریاؤں کو بہت پہلے ہی سماجی میل جول کی طرف راغب کیا ہوتا۔ وفاق کی سماجی مساوات پر مبنی پالیسیوں کی وَجہ سے خواندگی کی شرح بہترین ہوتی۔ یونیورسٹیوں نے متحرک دانش وارانہ سرگرمیوں کو فروغ دیا ہوتا، جو آج کے ہندوستان سے بھی زیادہ اور بہتر ہوتیں۔ اِن اداروں نے دنیا بھر سے صاحبِ علم لوگوں کو اپنی طرف راغب کیا ہوتا، اور وہ ساری دنیا کی ترقی کے لیے کام کرتے۔

    ہندوستانی وفاقی جمہوریہ کے پاس علما اور دانش وروں کی ایک وسیع تعداد ہوتی جو اپنی تاریخ اور تہذیب کے ساتھ جڑے ہوتے۔ ہماری یونیورسٹیوں کی نصابی کتابوں کا آغاز اِس ایک اہم باب سے ہوتا کہ دنیا کے اِس حصے (یعنی برعظیم پاک و ہند)نے انسانی تہذیب کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ ہم انگریزی زبان اور مغرب سے مرعوب دانش وروں کی تنگ نظری سے آزاد ہوتے اور رواداری اور تکثیریت (Pluralism) کی اپنی شان دار تاریخ پر فخر کرتے۔ ہمارے یونیورسٹی کے گریجویٹس اور اسکالرز میکاولی کی کتاب ”پرنس“کے بجائے چانکیہ کی کتاب ”ارتھ شاستر “کےحوالے دیتے ۔ سماجی علوم میں کام کرنے والے ہمارے محققین نے ہماری تاریخ میں سے ہم آہنگی اور رواداری پر مبنی ادوار پر روشنی ڈالی ہوتی۔

    دہشت گردی، انتہاپسندی اور طالبانائزیشن جیسے مسائل کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ کیوں کہ جن وجوہات کی وَجہ سے اِن کا آغاز ہوا ہے، ان کا بالواسطہ اور بلا واسطہ تعلق برصغیر کی تقسیم سے ہی ہے۔ امریکا اور اس کی بڑی کارپوریشنوں کا منحوس اور انسانیت دشمن اثر و رسوخ بہت کم ہوتا۔ اِس خطے میں استحصالی یورپی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ عوام کی حقیقی حاکمیت (سماجی اور معاشی جمہوریت)قائم ہوتی۔

    ایشیاٹک فیڈریشن کی معاشی خودانحصاری اور مقامی مذاہب کے وحدت ِانسانیت پر مبنی پیغام نے پوری دنیا کے لیے آزادی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہوتا۔ تیسری دنیا کے ممالک کو امداد اور استحصالی قرض دینے کے بجائے ایشیاٹک فیڈریشن اُن ممالک کو مقامی صنعت اور انفراسٹرکچر کی ترقی میں مدد کرتی۔ اِس فیڈریشن نے اساتذہ اور ڈاکٹروں کی جماعتیں ہر اُس ملک میں بھیجی ہوتیں، جسےاُن کی ضرورت ہوتی۔ ایشیاٹک فیڈریشن، گلے کاٹنے والے سرمایہ دارانہ مقابلے (cut-throat market competition)کی نفسیات کے بجائے باہمی تعاون پر مبنی مشترکہ انسانی ترقیات کا جشن مناتی۔

    میرے لیے بہت آسان ہے کہ میں اپنے تخیل میں مستقبل کی ایک بہت دلکش تصویر میں رنگ بھرتا رہوں کہ اگر ہمارے خطے میں امن و سکون اور ہم آہنگی کا ماحول ہوتا تو حالات کیسے ہوتے، لیکن موجودہ زمانے کی حقیقتوں کو دیکھ کر میرا دم گھٹنے لگتا ہے اور مجھے اپنے تخیل کی موت قبول کرنی پڑتی ہے۔

    https://1687r.wordpress.com/2012/08/28/recalling-sindhis-dream/

    Share via Whatsapp