ذرائع ابلاغ میں اِظہار رائے کے رویہ کی اِصلاح کی ضرورت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ذرائع ابلاغ میں اِظہار رائے کے رویہ کی اِصلاح کی ضرورت

    ذرائع ابلاغ میں اِظہار رائے کے رویہ کی اِصلاح کی ضرورت

    By ڈاکٹر محمد عارف بہاولپور Published on Sep 03, 2023 Views 2431
    ذرائع ابلاغ میں اِظہار رائے کے رویہ کی اِصلاح کی ضرورت
     تحریر: ڈاکٹر محمد عارف، بہاولپور 

    قدرت نے انسانی فطرت کو مختلف مظاہر میں تقسیم کیا ہے، اس کے اندر موجود تشہیری صفت خودنمائی اس کے وجود کو نمایاں کرتی ہے۔
     یہ خصوصیت، جس کو اظہارِ رائے کا نام دیا جاسکتا ہے،انسانی ذہانت کو باقاعدہ شکل دینے اور ترغیب دینے کی طاقت رکھتا ہے، اس وقت ہم جدید معاشرت میں جی رہے ہیں، تو ایسے میں ضروری ہے کہ تشہیری فن کی صورت کو نکھارا جائے۔ 
    اپنے خیالات، عقائد اور اور تجزیے کو دوسروں تک پہچانے اور متاثر کرنے کے لیے اس رویے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی رویہ ایک خاص سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ تشہیری فن سماجیات کو شکل دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔جب کہ تشہیری رویے نے بہت سی مثبت تبدیلیاں پیدا کی ہیں، لیکن اس کی ممکنہ خامیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ 
           یہ دنیا معلومات میں ڈیجیٹل بیڑے کے ذریعے تیزی سے پھیل رہی ہے، ایسے میں لاپرواہی یا جانب داری ، تشہیری رویہ غلط تفہیمات، اختلافات حتی کہ دنگا فساد اور جھگڑوں کو جنم دے رہا ہے۔
    انسانی نفسیات جسم کی طرح انتہائی پیچیدہ اور لچک دار ہے، لیکن میں صرف اس کی نفسیاتی ساخت کو زیربحث لا کر اس کے نتائج پر بات کروں گا۔ زمانہ قدیم سے اِظہار مافی الضمیر کے رویہ کی بدولت انسان کے اندر اپنے خیالات، عقائد اور معلومات کو پھیلانے کا ایک قدرتی رجحان رہا ہے ۔اس رویے نے علم کے پھیلانے، ثقافتوں کی تشکیل، معاشرتی ترقی اور نظریات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم آج کے تیز ترین ڈیجیٹل کمیونیکیشن دور میں،اظہار رائے کے رویے کا اثر بہتر اور بدتر دونوں کے لیے زیادہ نمایاں ہوگیا ہے ۔
     آج دنیا کاپی رائٹس، غلط معلومات، غیرمتعلقہ مواد کی تشہیر، ایکو چیمبرز اور پولرائزیشن کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پروپیگنڈا کرنے کے رویے کی اِصلاح کرنا کتنا ضروری اور فوری توجہ طلب بات ہے۔ اس کی اِصلاح کرنا افراد، معاشروں اور عالمی برادری کی فلاح و بہبود کے لیے بھی ضروری ہے۔ میں نے یہاں پر اظہاررائے کی ارتقائی بنیاد، اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو تلاش کیا ہے، بات صرف بتانے کی حد تک نہیں ہے، بلکہ آج کے اس ڈیجیٹل دور میں ذمہ دارانہ ابلاغ کو فروغ دینے کے لیے حکمت عملی پیش کرنا ہے۔گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والے واقعات کی تشہیری مہم میں عام و خاص ہر شخص نے اپنی موجودگی کا احساس دِلایا ہے کہ وہ سوچتا، سمجھتا اور ایک رائے رکھتا ہے۔ 
    ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس اظہار رائے کے رویہ کی بدولت اس مواصلاتی نظام کے ذریعےعالمی مسائل جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، غربت اور صحت عامہ کے بحرانوں پر گفتگو کی جاتی، لیکن آج اس رویےسے آپس میں لفظی گولہ باری کا کام لیا جا رہا ہے ایک دوسرے کے خلاف آگ اُگلنے اور نفرت پھیلانے کا کام لیا جا رہا ہے۔
     ذرائع ابلاغ پر ہونے والے تجزیوں کا جب جائزہ لیا گیا تو عام و خاص سب کی سوچ سمجھ کا اندازہ ہوا کہ یہاں ضرورت ہے کہ اس اظہاررائے کے رویہ کی اِصلاح کی جائے۔آج اظہار رائے میں پائی جانے والی جذباتیت اس غیرمؤثر نظام کی عکاسی کرتی ہے ، جب ذرائع ابلاغ کا استعمال درست سمت میں رہنمائی کرنے والی قوت کے بغیر ہو تو نتائج مثبت نہیں ہوتے،اختیارات کا استعمال ذاتی،گروہی مفاد اور تقسیم کو جنم دیتا ہے۔ 
    انسانوں میں اظہاررائے کے رویے کی ابتدا اس کے ارتقا میں موجود ہے۔ اس کا ارتقائی سفر اسی وقت شروع ہوا، جب قدرت نے دنیا میں سب سے پہلے انسان کوعلم حاصل کر کےدوسروں تک منتقل کرنےکام سونپا۔ ابتدا سے انسان زندہ رہتے ہوئے مواصلات پر انحصارکرتا آیا ہے۔ نسل در نسل تجربات اور مہارتوں کو پھیلانے کی صلاحیت معلومات کی منتقلی کی بدولت ممکن ہوا۔ معلومات کو پھیلانے کے رویے نے ثقافت کی ترقی اور سماجی طور پر انسانی موافقت میں ایک اہم کردار ادا کیا،اس طرح سے اظہار رائے  کا رویہ انسانی سماج میں اس کی بقا کے حوالے سے  ایک طریقہ کار کے طور پر سامنے آیا۔
    معلومات کے اشتراک سے علم اور ایجادات میں سہولت میسر آتی ہے
    آزادی اظہاررائے کے رویے سے پیچیدہ مسائل کو اجتماعی طور پر حل کرنے اور معاشروں کو ترقی دینے میں مدد ملتی ہے۔ سماجی ہم آہنگی پیدا ہوتی اور دوسروں کی شمولیت کو فروغ ملتا ہے۔ جب خیالات اور تجربات کا اشتراک ہوتاہے تو سماجی بندھنوں کو مضبوطی حاصل ہوتی ہے اور آپسی تعلق اور اتحاد کو فروغ ملتا ہے۔ 
    ڈیجیٹل دور میں معلومات کے اشتراک میں آسانی نے غلط معلومات کو تیزی سے پھیلایا ہے۔ اس کے نتائج حقیقی طور پر دنیا کے لیے سنگین ہوسکتے ہیں۔ سیاسی، معاشی و سماجی تینوں شعبہ ہائے زندگی میں غلط معلومات نےبے راہ روی کو جنم دیا ہے۔
    پولرائزیشن اور تعصبات کی افزائش ہوئی ہے, پروپیگنڈے کا رویہ ایکو چیمبرز کے اندر موجودہ تعصبات کو تقویت دے سکتا ہے، جس سے پولرائزیشن اور اختلاف رائے اور دوسروں کے نقطہ نظر کی طرف ہمدردی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
    سوشل میڈیا الگورتھم ایکو چیمبرزمیں جہاں افراد کی صرف ان معلومات کو سامنے لایا جاتا ہے جو ان کے پہلے سے موجود عقائد ونظریات کے مطابق ہوتی ہیں اور یہ معلومات معاشرے میں تقسیم کو بڑھاتی ہیں۔ 
    سب سے پہلے اظہار رائے میں غیر پڑتال شدہ مواد کے منفی نتائج کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔اس انسانی خصلت کو ازسر نو تشکیل دینے، چیلنجز اور اَثرات کو پہچاننےکی فوری ضرورت کو سمجھنا چاہیے۔ ہم نے آج کل ہونے والے واقعات کو نشر ہونے کی ترتیب سے جاننے کی یہ کوشش کی ہے کہ ہم اس رویے پر نظرثانی کرسکیں۔ اپنی ذاتی نمو کی خاطر واقعات کو جس طرح سے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے، تاکہ سامعین کی نفسیات میں جذباتیت بھردی جائے ۔ ایک ایسا رحجان پیدا کیا جاتا ہے کہ اس وقت اس کے علاوہ کسی اَور طرف نہ سوچا سمجھا جائے۔ 
    اگر ہم ڈیجیٹل میڈیا کے اَثرات کی بات کریں تو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا نے معلومات کے پھیلاؤ میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ آج ایک واقعہ کو بالکل اصل حالت میں محفوظ کرنے کی صلاحیت موجود ہے، جیسا کہ  وہ ہوا یا ہو رہا ہے، جس سے معلومات کے پھیلتے ہوئے منظر نامے کو رہنمائی دینے کے لیے نئے طریقوں کی ضرورت ہے۔فہم وبصیرت کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور ضرورت ہے کہ اخلاقی ذمہ داری کو قبول کیا جائے۔فرسودہ روایتی تصورات پر نظر ثانی کرکے پروپیگنڈے کی اِصلاح کے لیے مواصلات کے فرسودہ تصورات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
    نا خواندہ صحافت کی خواندگی اور تنقیدی سوچ کو فروغ دیناہوگا۔ نظام تعلیم کے ذریعے افراد کو معلومات کا تنقیدی جائزہ لینے اور معتبر ذرائع کو سمجھنے کی مہارتوں سے آراستہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔لیکن افسوس کہ کالج کا پروفیسر اور عام نا خواندہ ریڑھی بان ایک طرح کی سوچ کا اِظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ صحافت میں حقائق پر مبنی معلومات اور قابل اعتماد ذرائع کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ صحافت کو درست اطلاعات اور حقائق کی جانچ پڑتال کو ترجیح دینی چاہیے منفیت پیدا کرنے والے رحجانات میں رکاوٹ بننا چاہیے۔ 
       اظہار رائےکی آزادی میں ہمدردی افہام و تفہیم کو فروغ ملناچاہیے،پیدا ہونے والی دشمنی کو کم کرنا اور تعمیری مکالمے کے روایت کواپنانےکی ضرورت ہے۔ایسی کامیاب مہمات اور تحریکات کو نمایاں کرنا چاہیے، جنھوں نے مثبت سماجی اَثرات کے لیے اظہار رائے کی طاقت کا استعمال کیا۔
    ذمہ دارانہ ابلاغی رویے کو فروغ دینے کے لیے افراد، اداروں اور حکومتوں سے اجتماعی کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
    متنوع نقطہ نظر کو ملانا اور جامع مواصلات کو فروغ دینا ایک زیادہ فہم وشعور اور ہمدردی سے آراستہ معاشرے کو فروغ دیتا ہے۔
    ذمہ دار افراد کے طور پر، یہ اہم ہے کہ ہم اپنے تصورات کو پھیلانے کے طریقوں کی مدد سے سماجی یکجہتی کے لیے تعمیری مباحثے کریں۔
    موجودہ ڈیجیٹل دور میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ اظہار رائے کے رویوں کی اِصلاح کی جائے۔ آج کے دور میں جہاں انسانی نفسیات کے بہت سے پہلوؤں پر تحقیق کا عمل جاری ہے، وہیں اس انسانی خصلت کی ارتقائی بنیاد کو تسلیم کرنے کے ساتھ اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو سمجھنا، ذمہ دارانہ ابلاغی عمل کو فروغ دینا ایک باخبر، ہمدرد اور متحد عالمی برادری بنانے کی جانب اہم اقدامات ہیں۔ مثبت تبدیلی اور سماجی ترقی کے لیے اظہار رائے کے رویے کی طاقت کو بروئے کار لا کر، ہم سب کے لیے ایک روشن اور زیادہ پائیدار مستقبل بنا سکتے ہیں۔ اخلاقی ذمہ داری کو اپنانا، میڈیا کی خواندگی کو فروغ دینا، اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینا اس اجتماعی کوشش میں ذمہ دارانہ ابلاغ سے چلنے والی دنیا کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔
    Share via Whatsapp