جدید دور کی غلامی
غلامی کی اقسام اور موجودہ دور میں اس کی شکلیں
جدید دور کی غلامی
تحریر۔ مدثر علی، لاہور
انسان اپنی اصل فطرت کے اعتبار سے تو آزاد پیدا کیا گیاہے، جیساکہ خلیفہ عادل حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مصر کے گورنر حضرت عمروبن العاص کے بیٹے سے فرمایا کہ ان (عوام ) کی ماؤں نے تو انھیں آزاد جنا، تم نے ان کوغلام کب سے بنالیا ؟
اس لیے غلامی اصل میں فطرت انسانی کے منافی ہے، لیکن بسا اوقات بعض افراد یا خاندانوں یا قوموں کو غلام بنادیا جاتا ہے اس لیے ان کی انسانیت میں بہت بڑا نقص آجاتا ہے، جس کو دور کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ ان کی انسانیت کی تکمیل کی جاسکے ۔
غلامی دو طرح کی ہوتی ہے ایک وہ غلامی جس میں ایک انسان پر طاقت سے غلبہ پاکر اس کی سوچ اور مرضی کو کنٹرول کیا جاتا ہے، جس سے ایک انسان جسمانی طور پر تکلیف میں رہتے ہوئے اپنے آقا کے حکم کو پورا کرتا ہے۔ یہ غلامی کی وہ قسم ہوتی ہے، جس میں غلام کے اندر غلامی کا احساس کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اور وہ اس لمحے کو محسوس کرتا ہے۔ اور اس سے چھٹکارے کا طریقہ تلاش بھی کرتا ہے، جدوجہد بھی کرتا ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں پہلے زمانے میں لوگ کرتے تھے۔
دوسری قسم کی غلامی وہ ہوتی ہے، جس میں اس غلام کو اس قدر خوب صورتی سے اور پر آسائش طریقے سے پابندی میں اور نگرانی میں رکھا جاتا ہے، جس میں کہ بہ ظاہر اس کی تمام ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے اور وہ بہت خوش ہوتا ہے ۔ یہ صورت غلامی کی بدترین صورت ہوتی ہے، کیوں کہ اس صورت میں سب سے مشکل کام غلام کو یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ وہ غلام ہے، اس پر ظلم ہو رہا ہے اور ظلم کا یہ طریقہ اس کے مذہب کو استعمال کر کے ایجاد کیا گیا ہے ۔ اس کے حقوق غصب کر لیے گئے ہیں۔ یہ غلامی اس کی زندگی کے ہر پہلو پر چھا چکی ہے اور اس کی سوچ کو محدود اور مختلف طریقوں سے جکڑ لیا گیا ہے، یہ بہت خطرناک غلامی ہے۔ خطر ناک اس لحاظ سے کہ اس میں شامل چاہے وہ ایک انسان ہو یا پھر اس سے جڑا خاندان یا ایک قوم ، ان کی سوچ کو ایک پلاننگ کے ذریعے محدود رکھا جاتا ہے، تاکہ وہ انسانی ترقی کے اس درجہ تک نہ پہنچ سکیں، جہاں ان کے اخلاق اور کردار کی تکمیل کا سامان ہو سکے۔
یہاں پر نہایت باریک بینی سے سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ طریقہ کار اگر تمام کی تمام قوم پر اپنایا جائے پھر ایک قوم سے نکل کر اس کو بین الاقواميت تک پھیلایا جائے تو اس کے نتائج اس قدر بھیانک ہیں کہ عام ذہن اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اور ایسا بہ ظاہر آج کے AI دور میں نظر آ رہا ہے، جہاں غلامی کا ایسا نہ نظر آنے والا طوق تیار کر کے پہنایا جا رہا ہے، جس سے تمام کے تمام لوگ ایک ہی ڈائریکشن میں موڑے جا رہے ہیں۔ بہ ظاہر تو ہم کو آزاد انسان والی تمام آسائشیں آرام و سکون کسی حد تک مہیا کیا جا رہا ہے اور جس میں چھوٹا سا درمیانہ اور ایلیٹ طبقہ مطمئن نظر آتا ہے۔ کیوں کہ ان کی سوچ کو ان کے دائرے کےمطابق محدود کر دیا گیا ہے۔
آزادی کا یہ فریب جس کا تعلق انسان کی چند ضروریات تک محدود ہے، آنے والے وقت میں اس کی زیادتی نسل انسانی کو ایک مستقل اور نہ نظر آنے والی طاقت کے نرغے میں دھکیل سکتی ہے۔ اس تصویر کو اگر تھوڑا اور واضحکیا جائے تو ہم موجودہ دور کی غلامی کے چند نئے اور غیرمحسوس حربوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
1۔ ڈیجیٹل ٹولز کے ذریعے نگرانی کا حربہ
ہمارے ہاتھ میں موجود موبائل فون اس کو آئے روز اتنا اپڈیٹ کیا جاتا ہے کہ اس سے اکٹھا شدہ مواد انسانوں کے رویے، ان کے خیال اور ذہنی اپروچ کا پیمانہ ان موبائل فون کے ذریعے طے کیا جاتا ہے اور استعمال کنندہ کو اس کی ذہنی استطاعت کے مطابق صرف وہی مواد بذریعہ انٹرنیٹ مہیا کیا جاتا ہے، جس حد تک اس کے ذہن کو کیٹیگرائز کیا جاتا ہے۔ جب وہ اس مہیا کیے گئے مواد پر ری ایکشن بذریعہ ترتیب شدہ ایموجیزیا پھر الفاظی اظہار دیتا ہے تو اس کے ذہن اور اس طرح کے تمام اذہان کو فلٹر کر کے کیٹیگرائز کر لیا جاتا ہے۔ اور اس طرح کی کیٹگری اور ذہنی اپروچ کو محدود رکھنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے۔ یہ عمل کسی ملک کی سوسائٹی کے مختلف طبقوں کے لیے مختلف طریقوں سے جاری رہتا ہے اور اس کے ذریعے ہی سامراج ان ہی لوگوں میں سے اپنے حمایتی اور حفاظتی طبقے پیدا کرتا ہے، تاکہ اس کے مفادات محفوظ رہ سکیں۔ یہی طریقہ سامراج تھرڈ ورلڈ کے ممالک اور ان کے تمام طبقوں پر اپلائی کرتا ہے اور ان کی انٹلیکچوئل فلٹریشن کے مطابق ان کو ڈائریکشن فراہم کرتاہے۔
2۔ اس کا دائرہ اگر مزید وسیع کریں تو یہی حربہ استعمال کر کے وہ پوری کی پوری انسانی سوسائٹی کا رخ متعین کرتے ہیں۔ اور اپنے اہداف اسی قوم کے ذریعے اسی کی مرضی کی مطابق ڈھال کر پورے کیے جاتے ہیں۔
یہاں ایک باریک سا نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی مضبوط منصوبہ بندی جس کا سحر اس قدر خطر ناک ہو، اس میں اس چیز کو سمجھنا کہ کس طرح انسانوں کی مرضی کے مطابق ان کے ذہنوں کو محدود کر کے غلام بنایا جاتا ہے۔ انتہائی مشکل ہوگا کہ اس کو توڑا جا سکے۔ انسانوں کو غلام بنانے کے لیے روائتی طور طریقوں کی جگہ ٹیکنالوجی کااستعمال کیا گیا ہے۔
اس سارے ماحول میں ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے اس دجل و فریب کے ہتھکنڈوں اور سامراجی چالوں کے خلاف اپنے سیاسی اور عقلی شعور کی بلندی کے لیے محنت کی جائے، تاکہ رہنمائی کے اصولوں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ سچے رہنما ؤں کے اوصاف کو بھی اپنایا جا سکے۔
اللہ پاک ہمارے علم و شعور کو بلند فرمائے آمین