پاکستان کا نظام عدل؛ایک جائزہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستان کا نظام عدل؛ایک جائزہ

    کسی بھی ریاست میں نظام عدل کا انصاف پر مبنی ہونا ہی معاشرتی ترقی اور بقا کی ضمانت ہوتا ہے۔

    By Fahad Muhammad Adiel Published on Aug 08, 2023 Views 1850

    پاکستان کا نظام عدل؛ایک جائزہ

    تحریر؛ فہد محمد عدیل، گوجرانوالہ 

    پاکستانی سماج کی تاریخ کمزوروں پرظلم اور طاقت وروں کو تحفظ دینے کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ گزشتہ دنوں میں سوشل میڈیا پرتین ایشوز نمایاں رہے۔ ان ایشوز پر پڑھے لکھے طبقات کی طرف سے پاکستان کے فرسودہ عدالتی نظام پر تنقید جاری ہے۔ رائج عدالتی نظام میں عدل و انصاف ، نظم وضبط کے فقدان سے آنے والی نوجوان نسلوں کا نہ صرف مستقبل، بلکہ معاشرتی بقا بھی خطرات سے دو چار نظر آ رہی ہے۔ 

    پہلا ایشو ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں مبینہ جنسی ہراسگی کی بنیاد پر بننے والی سینکڑوں نا زیبا ویڈیوز ہیں، جس نے اعلیٰ تعلیمی نظام پر سوالات کھڑے کردیے ہیں ، اس واقعہ نے جہاں زیرتعلیم طلبا  و طالبات کےمستقبل کو مخدوش بنا دیا ہے، وہیں ان طلبا و طالبات کو بھی اضطراب میں مبتلا کردیا ہے جو ماضی میں اس ادارے سے وابستہ رہے۔ والدین کے ذہنوں میں سوال پیدا کردیا ہے کہ وہ کن تعلیمی اداروں پر اعتماد کر یں۔پاکستان کے کسی ادارے نے نہ تو اس واقعہ کی ابتدائی تحقیقات عوام کے سامنے رکھی ہیں، بلکہ پرنٹ میڈیا اورالیکٹرانک میڈیا کی مجرمانہ خاموشی سماجی بے حسی کا اشارہ دے رہی ہے۔ پاکستان کا سوشل میڈیا چوں کہ غیرمصدقہ اطلاعات کا مجموعہ ہے، ان پر چلنے والی خبروں سے یہ اطلاعات ہیں کہ اس کےمرکزی ملزموں میں یونیورسٹی کا سیکیورٹی انچارج ،ڈائریکٹر فنانس اوربڑے سیاست دان کا بیٹا شامل ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری زیر تفتیش سیکیورٹی انچارج کی تصاویراس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ تفتیشی ٹرائل بہ طور رسم پورا کیا جارہا ہے اور قوی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں تمام ملزمان کو تفتیشی ادارے حصہ بہ قدر جثہ وصول کرتے ہوئے اس کہانی سے الگ کردیں گے۔یوں یہ کسی فائل کا ہی حصہ رہ جائے گی۔ اس کیس میں بھی ملک کا عدالتی نظام مجرمان کے پلڑے میں انصاف کو تول کر سماج کی بنیاد میں ظلم کا ایک اور گہرا شگاف کردے گا۔ یونیورسٹیوں میں نشے کے کاروبار اور طلبا و طالبات کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا کسی ایک یونیورسٹی تک محدود نہیں، بلکہ ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں میں یہ گھناؤنے جرائم داخل ہو چکے ہیں جو نسل نو کی تباہی کے عمل میں اضافہ کر رہے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر دوسرا بڑا ایشو اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں سول جج کے گھر پر 15 سالہ گھریلو ملازمہ رضوانہ کا ہے۔ ایک خبر کے مطابق اس پراتنا تشدد کیا گیا کہ جنرل ہسپتال لاہور کے میڈیکل بورڈ نے بتایا ہے کہ بچی کے بازو فریکچر ، اندرونی مسلز میں چوٹیں اور تشدد کی وَجہ سے خون کی گردش نہیں ہورہی ، تشدد کی وَجہ سے جگر متاثر ہے اور ماہرنفسیات کے مطابق بچی تشدد کی وَجہ سے ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔ دوسری طرف اس کیس کے آغاز میں ہائیکورٹ نے سول جج کی بیوی کو گرفتار کرنے سے روکنے کے احکامات جاری کردیے تھے،جسے اب گرفتار کیاجا سکاہے۔

    تیسرا اہم ایشو ایک مزدور ریڑھی بان فرمان اللہ کا ہے جو فیصل مسجد اسلام آباد کے پارکنگ ایریا میں قلفی کی ریڑھی لگاتا تھا۔اسے پولیس نے پارکنگ ایریا میں ریڑھی لگانے کے جرم میں پکڑ کر 5لاکھ روپے جرمانہ کرکے جیل میں بھیج دیا ۔ کیوں کہ مسجد کی پارکنگ ایریا پر ایک غریب کی یہ ہمت کہ وہ ملک کے دارالخلافہ کی بے حرمتی کرے یہ ہمارے قانون قائم کرنے والے اداروں کو کیسے برداشت ہوسکتا ہے ۔

    عدالتی نظام کے فیصلوں کی اکثریت طاقت ور کے حق میں ہوتی ہے، مگر متذکرہ بالا تین اہم واقعات نے پاکستانی ریاست کے عدالتی نظام کی قلعی کھول دی ہے ، پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (PID) ، گورنمنٹ آف پاکستان وزارت اطلاعات و نشریات کی شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ورلڈ جسٹس پروگرام کے تحت سروے جس کا آغاز 2021ء میں ہوا اور رپورٹ 2022ء میں شائع ہوئی، اس کے مطابق پاکستان کا پوری دنیا کے 139 ممالک کے عدالتی نظاموں کی رینکنگ میں کم ترین رینک 130 واں نمبر حاصل کیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق سروے کے دوران 9 عوامل کوزیر بحث لایا گیا، جن میں حکومتی طاقت کی حدیں، انسداد بدعنوانی، حکومتی اداروں تک رسائی، بنیادی انسانی حقوق، امن وامان کی صورتِ حال، قانون کی حکمرانی، دیوانی عدالتی نظام، فوجداری عدالتی نظام اور غیر رسمی عدالتی نظام پر تمام ممالک کو پرکھا گیا ۔ ستم ظریفی اس حد تک ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی مراعات ، تنخواہیں اس وقت نہ صرف پاکستان، بلکہ پوری دنیا میں دی جانے والی اجرتوں میں سب سے زیادہ ہیں اور تمام ادائیگیاں بذریعہ عالمی مالیاتی اداروں کے ہوتی ہیں جو بعد میں قومی خزانے کو بلز بھیجتے ہیں۔ ملک میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے کوئی بھی مسئلہ آتا ہے تو اس حقیقت کو نہیں پرکھا جاتا کہ قانون کا کیا تقاضا ہے، بلکہ فیصلے دیتے ہوئے اور فیصلوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ جس کو قانون کی گرفت میں لانا ہے ۔اس کی حیثیت کیا ہے؟ ملک کے تمام سیاسی ، انتظامی ادارے اس بدعنوانی کاشکار ہو چکے ہیں۔ ملزم جتنا بااثر ہو ، صاحب حیثیت ہو، اختیارات کا مالک ہو اس اعتبار سے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ مشہورمقولہ ہے کہ نظام ظلم میں قانون ایک مکڑی کا جالا ہوتا ہے، جس میں کیڑے مکوڑے پھنس جاتے ہیں اور طاقت ور جانور اس کو روند دیتے ہے۔

    عدالتی نظام کا بنیادی فریضہ معاشرے کے ہر امیر وغریب شخص، طاقت ور و کمزورطبقہ کوعدل وانصاف فراہم کرناہے،جس کی بنیاد پر دھرتی کو دھرتی ماں کا خطاب دیا جاتا ہے ، کیوں کہ ماں اپنے مظلوم بچے کی داد رسی کرتی ہے اور ظالم اور سرکش بچے کو کڑی سے کڑی سزا دے کر اس کی تربیت کرتی ہے۔ جب یہ وصف ریاستی نظام سے ختم ہوجائے ، اور ریاستی ادارے اپنا وزن طاقت ور کے پلڑے میں ڈالنا شروع کردیں تو وہاں پر بربریت، سفاکیت جنم لیتی ہے۔ قوم ، سماج اور معاشروں کی تشکیل نظم وضبط اور نظام عدل کی بنیاد پر ہوتی ہے، جب کہ ان خصوصیات سے عاری افراد کے مجموعے ، ہجوم اور گروہ کہلاتے ہیں۔

    Share via Whatsapp