سیاسی جماعتیں یا خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں؟
پاکستان کی سیاسی جماعتیں نام تو جمہوریت کا لیتی ہیں لیکن عملی حوالے سے آمریت پر یقین رکھتی ہیں۔
سیاسی جماعتیں یا خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں؟
تحریر ؛ محمد عثمان ۔ فیصل آباد
وطنِ عزیز میں روز مرہ کےمباحث میں جمہوریت کی اصطلاح کا استعمال تو کثرت سے کیا جاتا ہے، لیکن اس موضوع پر سنجیدہ غورو فکر اور تبادلہ خیال کم ہی ہوپاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جمہوریت کےاستحکام سے وابستہ ایک اہم پہلو سیاسی جماعتوں میں موجود جمہوری رویوں کی صورتِ حال سے متعلق ہے۔معاملہ ایک فرد کا ہو یا جماعت کا، باہر وہی کچھ آتا ہے جو اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ تمام آسمانی اور اخلاقی مذاہب اِس بات پر متفق ہیں کہ جو کام آپ خود نہ کرتے ہوں اُس کا وَعظ دوسروں کو بھی نہیں کرنا چاہیے۔ دینِ اسلام میں اِس رویے پر انتہائی سخت گرفت اِن الفاظ میں کی گئی ہے: ”اے ایمان کے دعوے دار! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے۔ خدا کے نزدیک یہ انتہائی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں ہو“(1)
سماجی علوم کے ماہرین کے مطابق قیادت کی بہترین اور نتیجہ خیز صورتLeadership by Example یعنی اپنے عمل اور مثال کے ذریعے لوگوں کی قیادت کرناہے۔ ایک عام فرد کا معاملہ تو قابل ِمعافی ہو سکتا ہے، لیکن قیادت کی دعوے دار جماعت کو سختی سے اِس اصول کی پیروی کرنی ہوتی ہےکیوں کہ اس کے رویے اور کردار نیچے پوری قوم میں سرایت کرجاتے ہیں۔ اب ذرا اِس معیار پر اپنی سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیں۔ جس جمہوریت کا یہ ہر وقت ڈھول پیٹتی ہیں، کیا اپنے اندر بھی اِنہوں نے جمہوریت کو پروان چڑھایا ہے یا وہاں بدترین شخصی اور گروہی آمریت مسلط ہے؟
اِس حوالے سے جب ہم ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ کم و بیش تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں، چند شخصیات اور خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہیں۔ کسی بھی جماعت میں اگرُاس ایک شخصیت (یا خاندان)کو نکال دیا جائے تو پیچھے کوئی جماعت نہیں بچتی، بلکہ سب اہم عہدےدار اور کارکن تتر بتر ہوجائیں گے۔ اسی لیے کبھی ایک مخصوص شخصیت کوبار بار اقتدار میں لانےکے لئے قانون میں ترمیم کروائی جاتی ہے تو کہیں دوسری شخصیت کا نام اورولدیت ہی بدل دی جاتی ہے تاکہ اس کا تعلق ایک مقبول عوامی رہنما اور اس کے خاندان کےساتھ جوڑا جاسکے۔ کہیں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے نِرغے میں پھنسی کسی تیسری شخصیت کو تمام مسائل کے حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ماضی قریب میں آنے والی سیاسی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ حالات کے بعد عوام اور صحافتی دانش وروں کی اِس خوش فہمی کا بھی خاتمہ ہوجانا چاہیے کہ اگروزارت ِعظمیٰ کی کرسی پر بیٹھا ایک فردِ واحد ایمان دار ہوجائے تو سارا ریاستی نظام اور ادارے خود بہ خود درست ہوجائیں گے۔
حال ہی میں پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے اندرونی الیکشن کا نتیجہ سامنے آیا۔ (2)جس کے مطابق پارٹی صدر، سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزرجیسے اہم ترین عہدوں پر ایک ہی خاندان کی شخصیات بلا مقابلہ منتخب ہوئیں۔ اس کے علاوہ جنرل سیکرٹری،اطلاعات ، سمندر پار اور بین الاقوامی امور کے عہدوں پر بھی بلا مقابلہ انتخاب کے ذریعےایسی شخصیات کی تعیناتی عمل میں آئی جو پارٹی کے مرکزی خاندان کے وفادار سمجھے جاتے ہیں۔یہ انتخابات اپنے مقررہ وقت سے ایک سال تاخیر کے بعد مجبوراً کروائے گئے کیوں کہ مذکورہ پارٹی کے خلاف انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے کے باعث الیکشن کمیشن میں درخواست زیرِ سماعت تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی پارٹی ماضی میں” ووٹ کو عزت دو“، جمہوریت اور سویلین بالادستی کے نعرے بلند کرتی رہی ہے اور آج کل مقتدرہ کے ساتھ مل کر ملک میں معاشی اور زرعی ”انقلاب “کے مراحل طے کررہی ہے۔
یہ جماعتیں الیکشن کے جس عمل میں شرکت کرنے کی انتہائی متمنی ہوتی ہیں وہی الیکشن یہ اپنی جماعتوں کے اندر کروانے سے خوفزدہ ہوتی ہیں۔ اگرپارٹی کے اندر الیکشن کروانے کی شرط پاکستانی قانون میں موجود نہ ہو تو کوئی سیاسی جماعت بھی الیکشن نہ کروائے۔قانونی مجبوری کے تحت کروائے گئے ان نمائشی انتخابات میں بیشتر سیاسی جماعتوں کے سربراہ تاحیات اپنے عہدے پر فائز رہتے ہیں اور اُن کی وفات کے بعد اگلے دور میں یہ ”ذمہ داری“ ان کی اولاد سنبھال لیتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ روایتی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود مذہبی اور قوم پرست جماعتیں بھی آج خاندانی لمیٹڈ کمپنیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ اِسی طرح پارٹی کے ديگر اہم عہدوں پر بھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری ہوتی ہے۔جماعت میں عام آدمی کی شمولیت بس اِس درجے میں ہوتی ہے کہ وہ اِن جماعتوں کے جلسوں میں جا کر نعرے مارے اور اپنے” لیڈران “ کے سہانے وعدوں کے لالچ میں آکر انھیں ووٹ ڈال آئے۔
جمہوریت کی بنیاد مشاورت کی، جس روح پر قائم ہے وہ روح بھی سیاسی جماعتوں میں مفقود ہے اور عام طور پر تمام سیاسی معاملات آمرانہ بنیادوں پر چلائے جاتے ہیں۔ یہی رویے اقتدار میں آکر مزید نمایاں ہو جاتے ہیں، جب بیش تر فیصلے کچن کیبنٹ کے ذریعے مرکزی قیادت اپنے خاندان یا چند قریبی دوستوں کے اندر ہی طے کررہی ہوتی ہے، جس طرح سیاسی نمائندے اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد پانچ سال تک عوام کو شکل نہیں دکھاتے ، اِسی طرح مرکزی قیادت بھی اقتدار میں آنے کے بعد اسمبلیوں میں موجود اپنے نمائندوں سےلاتعلق ہوجاتی ہے اور حکومتی معاملات اپنے اردگرد موجود خوشامدیوں اور چند بیورکریٹس کے ذریعے چلانے لگتی ہے۔
اِس صورت حال میں نوجوانوں کے لیے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو بھی جماعت ملک میں جمہوریت کے قیام اور فروغ کا دعوی ٰکرے، اُس جماعت کے اندرونی نظام کو دیکھا جائے کہ وہ کس حد تک جمہوری رویوں، مشاورت اور کارکنوں کی نظریاتی و عملی تربیت پر مبنی ہے۔ جو جماعت اپنے اندر جمہوری رویے اور صلاحیت کی بنیاد پر ترقی کا معیار قائم نہ کرسکے، وہ پورے ملک کے اندر ان اقدار کو فروغ دینے میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟
حوالہ جات:
1۔ سورۃ الصف، آیت 1-2
.2https://dunya.com.pk/index.php/dunya-headline/HeadLineRoznama/734334_1