اہلِ شعور کی صحبت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اہلِ شعور کی صحبت

    انسانی ارتقاء بغیر کسی نظریے کے ممکن نہین، کسی بھی نظریے یا وِژن کی پیمائش اس پہ بننے والی تربیت یافتہ و باشعور جماعت پہ ہوتی ہے۔

    By Ali Hassan Azad Published on Jul 19, 2023 Views 1566
    اہلِ شعور کی صحبت
    علی حسن آزاد، جیکب آباد

    "عیش" اور "عشق" بظاہر ہم وزن الفاظ ہیں لیکن  اپنے معنوی مفہوم کے اعتبار سے الگ الگ وضاحت رکھتے ہیں۔ انسانی فطرت  ان میں سے کسی ایک کا چناؤ کرتی ہے اور اسے اپنی زندگی کا مرکزی نقطہٴ حیات بناتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جس طرح کائنات کے ہر ذرے نے اپنی فناء و بقاء کا استعمالاتی رخ متعین کر لیا ہے۔ 
     انسان چونکہ شعور رکھتا ہے اور اپنے نوعی تقاضوں سے باخبر ہے، اس لیے اپنی فطری ارتقاء کو مثبت نتائج کا رُخ دینے کے لیے اپنی خودی میں "تہذیب" اور "عشق" کی ذہنی اور نفسیاتی یگانگت پیدا کرتا ہے جو انسان کو عالمِ کائنات کی باقی مخلوقات یعنی جمادات، نباتات و حیوانات سے ممتاز کرتی ہے۔ نتیجتاً امتیازی وصف سے متصف یہ انسان طبعی طور پر فرحت، سرور، مسرت اور لذتوں کے حصول کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ اب جو انسان فرحِ طبعی (جسمانی اور طبعی خوشی) کے غرض سے حالتِ سکوں کی تلاش میں دولت و شہرت کے گرد گردشِ سیر ہوتا رہے تو گویا اسے 'دائرہِ عیش' کی چادر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اور جب کوئی انسان اہلِ شعور سے وابستگی رکھتا ہو، فرحِ عقلی و فرحِ قلبی کے تقاضوں کا منطقی شعور رکھتا ہو تو وہ حلقہٴ عاشقاں سے جُڑ کر تجلیاتِ الہی کے پرتو  میں تربیتی نشو و نماء پاتا ہے اور فرحِ عقلی، فرحِ قلبی و فرحِ نفسی کے اعتبار سے اپنے اندر ابتہاج (لطف اندوزی) کی کیفیات پا کر مقامِ تربیت میں عروج پہ پہنچ جاتا ہے۔ ایسے ہی فکری انسان کا چلنا، پھرنا، اُٹھنا، بیٹھنا یا ہم فکر احبابِ کے ساتھ کسی اجتماعی ماحول میں شاملِ حال ہونا اسے شعوری کشش اور تربیتی توجہ کی طرف کھینچتا ہے۔
    بے بس الفاظ و معذور زبان اس عاشقانہ کیفیت کی عکاسی نہیں کر سکتی کہ جو لمحے، قدرت  ہمیں ہم خیال احباب کے ساتھ عطا کرتی ہے، جن میں خزاں کے ماروں کو بہار ملے اور بے قراروں کو قرار۔
    اس حیاتِ مختصر میں اہلِ شعور کی صحبت ہمارے لیے شہد سے بھی زیادہ میٹھی مٹھاس اور شفاء (ذریعہِ تربیت) ہے۔ جبکہ اس کے برعکس رفقائے انقلاب طاغوت کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور غالب نظامِ سرمایہ داریت کے لیے پیغامِ موت ہوتے ہیں؛
    زمیں پہ بہتے لہو کا حساب چاہتا ہوں،
    میں اب گلاب نہیں، انقلاب چاہتا ہوں!
    Share via Whatsapp