شاک ڈاکٹرائن، نائن الیون اور تاریخ کا سبق
اپنی تاریخ اور اردگرد کے حالات کا درست ادراک حاصل کرنے کے لئےشاک ڈاکٹرائن جیسےتصورات ہماری مدد کرسکتے ہیں۔
شاک ڈاکٹرائن، نائن الیون اور تاریخ کا سبق
محمد عثمان۔ فیصل آباد
ناؤمی کلائن کینیڈا سے تعلق رکھنے والی مصنف، سماجی کارکن اور فلم میکر ہیں اور آج کل امریکا کی Rutgers University میں میڈیا، ثقافت اور حقوق نسواں کے شعبے کی چیئرمین ہیں۔ آپ سرمایہ داری نظام، عالمگیریت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے انسانیت پر کیے جانے والے استحصال اور ماحول کی تباہی کی سخت ناقد ہیں اور ان موضوعات پر کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔ناؤمی کلائن نے اپنی کتاب (The Shock Doctrine: The Rise of Disaster Capitalism)میں شاک ڈاکٹرائن کے نام سے ایک نئی اصطلاح کو متعارف کروایا ہے۔
اِس اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ آج کے زمانے کا سرمایہ داری نظام بحرانوں (مثلاً جنگ، فوجی بغاوت، دہشت گردوں کے حملے، معاشی منڈی کا کریش ہوجانا اور سیلاب، سمندری طوفان جیسی قدرتی آفات وغیرہ) میں فروغ پاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ سامراجی ممالک پوری دنیا میں مصنوعی بحران پیدا کرکے یا قدرتی طور پر پیدا شدہ بحرانوں کی آڑ میں بے رحم اور استحصالی معاشی پالیسیاں نافذ کرتے ہیں، جس سے عوام کی زندگیاں دوبھر ہوجاتی ہیں اور چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع میں دن دگنا رات چوگنا اضافہ ہوتا ہے۔بحران چاہے قدرتی ہو یا مصنوعی، فائدہ صرف سرمایہ دار ہی اُٹھاتے ہیں۔ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتِ حال یامعاشی بحرا ن کے دوران حکمران طبقات گھبرائی ہوئی عوام کو یہ بیانیہ بیچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ سماجی تحفظ کے پروگرام مثلاً پنشن ، سرکاری سہولتوں اور غریب عوام کو دی جانے والی سبسڈی وغیرہ ختم کرنا اور نجی سرمایہ دار شعبے کو بڑے بڑے امدادی پیکج دینا انتہائی ضروری ہے، ورنہ دوسری صورت میں پورا معاشی اور سماجی ڈھانچہ تباہ ہوجائے گا۔
اِن بحرانوں کے دوران خوف کی ایسی فضا قائم کردی جاتی ہے کہ عوام سےاحتجاج کا جمہوری حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والوں کو غدار اور ملک دشمن قرار دے کرسماج میں تنہا اور اجنبی بنا دیا جاتا ہے۔ ابلاغ کے تمام ذرائع پر ریاستی اجارہ داری قائم کردی جاتی ہے۔ لوگوں کی توجہ غیرضروری یا سطحی موضوعات میں اُلجھا دی جاتی ہے، تاکہ وہ عوام کی اکثریت کا استحصال کرنے والی پالیسیوں کا جائزہ نہ لے سکیں ۔ موقع ملنے پر یہی کام تیسری دنیا کے ممالک کی حکومتیں اور سرمایہ دار طبقات اپنے معاشرے میں کرتے ہیں۔
اس کی سب سے خوف ناک مثال جنوبی ا مریکا کے ملک چِلی (Chile) کی ہے، جہاں1973ءمیں ایک فوجی آمرجنرل آگسٹے پنوشے نے مقبول عوامی رہنما سلواڈور الانڈے کی سوشلسٹ اور جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اقتدار پر اپنا ناجائز قبضہ مضبوط بنانے کے لیے تشدد سے 3200 لوگوں کو مروایا ،یا غائب کروا دیا، 80 ہزار لوگوں کو جیلوں میں ڈالا اور دو لاکھ لوگوں کو مجبوراً ملک چھوڑنا پڑا۔پنوشے اگلے 17 سال تک چلی میں صدارت کے منصب پر قابض رہا۔ مجموعی طور پر جنوبی امریکا کے جنوبی خطے میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو ایسی جیلوں میں ڈالا گیا، جہاں تشدد اور جبر کے ذریعے ان کی قوتِ ارادی کو توڑا گیا۔ جبروتشدد کایہ عمل کسی پاگل آمر کی ذہنی اختراع نہیں تھا، بلکہ لوگوں کو اپنا فرماں بردار بنانے کا سوچا سمجھا اور منصوبہ بند عمل تھا، جس میں امریکی حکمرانوں کی سرپرستی اور امریکی معیشت دانوں کی مشاورت شامل تھی۔
معاشی شاک تھراپی کے نتیجے میں انسانی آبادیوں میں غربت، پس ماندگی اور خوف و ہراس کا غلبہ قائم ہوتا ہے۔ معاشی جھٹکوں کا یہ عمل (Economic Shock Therapy) لوگوں کو اپنی روائتی سوچ بدلنے او ر کھلی منڈی پر مبنی معیشت کو قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ریاستی اداروں کی نجکاری، یونین سازی پر پابندی، بچت کے نام پر عوامی فلاح کے منصوبوں کی کٹوتی اور مزدوروں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کے خاتمے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پیدا ہوتی ہے۔ اِسی طرح بنیادی ضرورت کی اشیا (پانی، روٹی، گھی وغیرہ) کی قیمتوں پر حکومتی کنٹرول ختم ہونے سے مزدوروں کی محنت کی کمائی بے وُقعت ہونے لگتی ہے اور مہنگائی ، بھوک اور غربت کاطوفان جنم لیتا ہے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ حقیقت واضح ہوتی جارہی ہے کہ سرمایہ داری نظام میں نظر آنے والی خوش حالی اور ترقی دراصل تیسری دنیا کی اقوام کے وسائل کی لوٹ مار پر مبنی ہے۔ اِس لوٹ مار کے نتیجے میں جو لامحدود دولت مغربی ممالک میں منتقل ہوتی ہے، اُس کا ایک قلیل حصہ مغربی ممالک کے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرکے وہاں انصاف اور خوش حالی کی ایک مصنوعی فضا قائم رکھی جاتی ہے، تاکہ عوام میں کسی بھی سطح پر سرمایہ داری نظام کے خلاف شعوری بیداری پیدا نہ ہوسکے۔دوسری طرف عوام کے ذہنوں پر ایک ایسے انجان دشمن کا خوف بھی مسلط رکھا جاتا ہے جو اُن کے رہن سہن اور اَمن و امان کو تہس نہس کرنا چاہتا ہے۔
اکیسویں صدی کا آغاز نائن الیون جیسے واقعے سے ہوا، جس نے انسانوں کے طرز فکروعمل کو حیران کن حد تک بدلنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔شاک ڈاکٹرائن کی اصطلاح کو سمجھنے میں نائن الیون کا مطالعہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ سردجنگ کے دوران سوویت یونین کے نام پر جس دشمن سے عوام کو ڈرایا جاتا تھا ، اُس کا خاتمہ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ہوچکا تھا، اِس لیے عوام میں جنگی اخراجات میں کمی اور عوامی سہولیات میں اضافے کے مطالبات جنم لینے کا اِمکان بڑھ رہا تھا۔ ایسے میں سال 2001ء میں ستمبر کے مہینے کے گیارہویں دن، نائن الیون کا حیران کن واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے، جس میں دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور سائنسی طاقت امریکا کے شہر نیویارک کے تجارتی مرکز پر اغوا شدہ مسافر فضائی طیارے ٹکرائے، جس کے نتیجے میں تھوڑی ہی دیر میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دو عمارتیں زمین بوس ہوگئیں، جب کہ تیسری عمارت بغیر کسی جہاز کے ٹکرائے ہی ملبے کا ڈھیر بن گئی۔
یہ معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا کہ ہوائی جہاز کے جلنے والے تیل نے لاکھوں ٹن وزنی سٹیل کے ڈھانچوں کو کس طرح پگھلا دیا ۔ ایک رائے یہ ہے کہ ہوائی جہاز میں استعمال ہونے والا تیل ، مقدار اور درجہ حرارت کے لحاظ سے یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ ایک دیوہیکل عمارت کو زمین بوس کردے۔ دوسری طرف پینٹاگون کی عمارت کا ایک حصہ بھی تباہ ہو گیا، جس کی وَجہ جہاز ٹکرانا بتائی جاتی ہے، لیکن موقع پر کسی جہاز کا ملبہ نہیں مل پایا۔ اِس حوالے سے شکوک و شبہات کا اِظہار کرنے پرآپ پر مغربی استعمار کے وفا دار میڈیا اور اُس کے خیرخواہ مشرقی دانش وروں کی طرف سے فورا ًکانسپائریسی تھیورسٹ یعنی سازشی نظریات میں یقین رکھنے والے غیر سنجیدہ انسان کا لیبل لگ سکتا ہے۔ اِس لیے ہم نائن الیون کی تکنیکی تفصیلات کو فی الحال نظرانداز کرکے اِس معاملےکے سیاسی، معاشی اور سماجی پہلوؤں کو زیرِغور لاتے ہیں۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کرنے والے افراد کا تعلق امریکا کے حلیف ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر سے تھا، لیکن اِس واقعے کی ذمہ داری افغانستان میں موجود اُن جنگجوؤں پر عائد کی گئی، جنھیں خود امریکی سامراج نےاَسّی اور نَوّے کی دہائی میں پروان چڑھایا تھا۔ سامراج کے تاریخی کردار کے عین مطابق خود ہی اسامہ بن لادن پر حملے کا الزام عائد کیا گیا، خود ہی سزا سنائی گئی اور خود ہی سزا پر عمل درآمد کرتے ہوئے افغانستان کا تورا بورا بنا دیا گیا۔ پوری دنیا میں خوف، دہشت اور انتقام کی ایسی کیفیت پیدا کی گئی کہ افغانستان پر حملے کی مخالفت کا لازمی مطلب یہ قرار پایا کہ آپ دہشت گردوں کے حمایتی ہیں۔ ایسے میں دنیا کے نام نہاد ’مہذب اور ترقی یافتہ‘ممالک اپنے جدید ترین اسلحے اور فوجی طاقت سے لیس ہوکر دنیا کے کمزور ترین ملک پر ٹوٹ پڑے۔ اِس وحشیانہ عمل کی منظوری اقوام متحدہ جیسے نمائشی اور طفیلی ادارے سے بھی لی گئی، جس کا بنیادی مقصد ہی دنیا میں امن قائم کرنا اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنا طے کیا گیا ہے۔ اس جنگ میں اَب تک پنتالیس لاکھ لوگ جان سے جاچکے ہیں، جن میں تقریبا دو لاکھ افغانی، اسی ہزار پاکستانی اور تیس لاکھ عراقی عوام شامل ہیں۔
وار آن ٹیرر کے نام سے جس جنگ کا آغاز کیا گیا، اُس کے نتیجے میں امریکا اور اُس کے حواریوں نے درج ذیل مقاصد حاصل کیے :
الف۔مغربی اقوام میں اِسلام کو ایک انتہاپسند مذہب اور تمام مسلمانوں کو دہشت گرد کے روپ میں پیش کرکے عوام کو اسلاموفوبیا کا شکار بنایا گیا۔ بدلے میں عوام سے سرمایہ داری نظام کی مکمل اطاعت اور شہری آزادیوں پر قدغن کو قبول کروایا گیا۔
ب۔ افغانستان پر قبضے کے ذریعے سے وسطی ایشیا کے تیل اور گیس کے وسائل میں امریکی حصہ داری کو یقینی بنایا گیا۔ دوسری طرف جنوبی ایشیا، روس اور چین کے ہمسائے میں رہتے ہوئے خطے میں اپنا اثرورسوخ قائم کیا گیا اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بدامنی پیدا کرنے کی حکمت عملی بنائی گئی، تاکہ پوری خطے کی ترقی اور یکجہتی کو نقصان پہنچایا جاسکے۔
ج۔ اِسی نام نہاد وار آن ٹیرر کے اگلے مرحلے میں میڈیا ہاؤسز کے ذریعے عراق میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا اور پھر اقوام متحدہ سمیت تمام مہذب ممالک کے انسانوں کی مخالفت کے باوجود عراق پر حملہ کر کے ایک پُرامن ملک کو تباہ و برباد اور لاکھوں انسانوں کو قتل کردیا گیا۔ تیل کے وسائل پر سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ قائم کیا گیااور ملک میں فرقہ وارانہ تضادات کو ابھار کر خانہ جنگی پیدا کی گئی ۔عراق پر قبضے کے بعد امریکا نے عراقیوں کو اپنی تیل کی صنعت کی نجکاری کرنے پر بندوق کی نوک پر مجبور کیا۔ امریکا نےعراقی عوام سےصدرصدام حسین کو ہٹانے کے بعد شفاف انتخابات کروانے کا وعدہ کیا تھا، مگر جب سرکردہ عراقی رہنماؤں نے عراقی تیل کی صنعت کی نجکاری سے انکار کردیا تو امریکی منتظم پال بریمرPaul Bremer نے ان کو اختیارات سے محروم کرنے کے لیے(امریکا کی وفادار) عبوری حکومت قائم کی اور یہ کہتے ہوئے کہ ’عراقی عوام ابھی جمہوری انتخابات کے لیے تیار نہیں‘ ، انتخابات منسوخ کردیے۔
اس کے بعد عراقیوں سے ایسی قانون سازی کروائی گئی، جس کے تحت بیرونی کمپنیاں اپنا 100 فی صد منافع بیرون ملک لے کر جاسکتی تھیں اور ان پر حاصل کردہ منافع کی عراق میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ اِس کے علاوہ اِن کمپنیوں پر ٹیکس کی شرح بھی 45 فی صد سے کم کر کے محض 15 فی صد کردی گئی۔ان اقدامات سےعراقی معیشت کو کتنا بڑ دھچکا لگا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ عراقی حکومت کی آمدن کا 95 فی صد حصہ تیل کی پیداوار سے منسلک تھا، یعنی دوسرے لفظوں میں آپ نے عراقی حکومت اور عوام کو اپنی آمدنی کے 95 فی صد حصے سے محروم کردیا۔
د۔ عراق کے بعد لیبیا اور شام پر قبضے کے لیے اِسی حکمت عملی کو دہرایا گیا۔ نتیجے کے طور پر لیبیا کے تیل کے وسائل پر مغربی کمپنیاں قابض ہیں، جب کہ لیبیا پچھلے دس سال سے بدترین خانہ جنگی کا شکار ہے۔ دوسری طرف شام جیسےخودکفیل اور پرامن سماج کو تباہ کرنے کے لیے امریکی سامراج اور اُس کے حلیف ممالک نےداعش اور دیگر دہشت گرد جنگجوؤں کوٹریننگ ،اسلحہ اور فوجی امداد فراہم کی، جس کے نتیجے میں ملک کا بڑا حصہ کھنڈر بن گیا اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوکر پناہ گزین بننے پر مجبور ہوگئے۔ یہ الگ بات ہے کہ شام اپنے مضبوط قومی نظام اور حلیف ملکوں کی مدد کی بدولت اِس خانہ جنگی سے بچ نکلا ہے۔امریکا میں جوبائیڈن کی نئی حکومت آتے ہی ایک بار پھر شام پر حملوں اور معاشی پابندیوں کا آغاز کر دیا گیا ۔
ہ۔ پوری دنیا میں عدم تحفظ اور جنگی جنون کی فضا پیدا کی گئی، جس کے نتیجے میں اسلحہ سازی کی صنعت پر کھربوں ڈالر خرچ کیے گئے۔صرف افغانستان میں امریکا نے بیس سال کے دوران 23 کھرب ڈالر خرچ کیے۔ اس رقم کا دسواں حصہ بھی اگر انسانی ترقی کے کاموں پر خرچ کیا جاتا تو دنیا بھرسے بھوک، جہالت، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کیا جاسکتا تھا۔
و۔ دہشت گردی سے تحفظ کے نام پر سیکیورٹی کمپنیوں، کیمروں اورسکیننگ مشینوں وغیرہ کی پوری ایک صنعت وجود میں آئی، جس کے نتیجے میں عوام کی نجی زندگی کی نگرانی کا عمل شروع ہوا، قومی اور تجارتی اخراجات میں اضافہ ہوا اور تمام بوجھ عام عوام پر منتقل کردیا گيا۔
ز۔ دفاع اور تعمیر نو کے نام پر نجی کمپنیوں کو کھربوں ارب ڈالر کے ٹھیکے دیے گئے۔ مثال کے طور پر 2003ء میں بش انتظامیہ نے نجی کمپنیوں کومختلف منصوبوں کےلیے 327 ارب ڈالر کے ٹھیکے دیے ۔جارج بش کے دورِ اقتدار میں پینٹاگون نے ہر سال 270 ارب ڈالرنجی ٹھیکوں پر خرچ کیے۔ اِن ٹھیکوں میں سے زیادہ تر بغیر کسی بولی (tendering process)کے براہ ِراست من پسند کمپنیوں کو جاری کیے گئے۔
نائن الیون کو گزرے آج بائیس سال مکمل ہونے والے ہیں اور پوری دنیا پر یہ حقیقت آشکارہونے لگی ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی محض ایک بہانہ تھا۔ اصل مقصد دنیا کے کمزور ممالک پر قبضہ اوران کے وسائل لوٹ کر مغربی دنیا میں قائم کردہ شیطانی جنت کو برقرار رکھنا تھا۔لیکن یہی بات اگر آپ 2001ء میں کرتے تو آپ کو ہر طرف سے سازشی نظریات میں یقین رکھنے والا کانسپائریسی تھیورسٹ اور دہشت گردوں کا حامی ہونے کا طعنہ ملتا اور ذرائع ابلاغ اور آپ کے دفتری کام کی جگہ پر آپ کا بائیکاٹ کردیا جاتا۔ اگر آپ پھر بھی باز نہ آتے تو آپ کی جان و مال بھی خطرے میں پڑ سکتے تھے۔
تاریخ کی درست اور جامعیت پر مبنی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مختلف اور متضاد ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ اپنے ملک کی تاریخ کو سمجھنے کےساتھ ساتھ دیگر اقوام کی تاریخ کا بھی بہ غور مطالعہ کریں اور اس کی بنیاد پر اپنی تجزیاتی صلاحیت کو مضبوط اور گہرا بنائیں۔ یہ عمل ہمیں اس قابل بنائے گا کہ ہم اپنے معاشرے میں مثبت سماجی تبدیلی پیدا کرنے کے لیے دور کے تقاضوں کے مطابق درست حکمت عملی اپنائیں اور اپنا اجتماعی کردار ادا کریں۔
ماخذ:
https://lifeclub.org/books/the-shock-doctrine-naomi-klein-review-summary