جزوقتی، جذباتیت پر مبنی تحریکیں اور ناکامی کے امکانات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • جزوقتی، جذباتیت پر مبنی تحریکیں اور ناکامی کے امکانات

    جو تحریکیں جذباتی ابال سے پیدا ہوتی ہیں، وہ بہت جلد ختم ہوجاتی ہیں۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں علاقائی اور لسانی بنیادوں پر اٹھنے ہونی تحریک کا تجزیہ

    By سہیل قریشی Published on Jun 20, 2019 Views 3272
    جز وقتی، جذباتیت پر مبنی تحریکیں اور ناکامی کے امکانات 
     تحریر : سہیل قریشی۔ مانسہرہ

    یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد ہمارے حصے میں جو قیادت آئی وہ نا اہل، سرمایہ پرست اور جذباتی تھی۔ لہذا ہمارے ملک کی زمام اقتدار 10 سالوں کے اندر ہی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ آ گئی۔ اسی دن سے اسٹیبلشمنٹ ملک کی سیاسی پارٹیاں تشکیل دے رہی اور سیاسی اتھل پتھل میں بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔ موجودہ دور کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کا ماضی اس بات کا گواہ ہے۔ اور یہ بڑی پارٹیاں اب بھی اسٹیبلشمنٹ کے لئے استعمال ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ الیکشن سے قبل یہ جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کو اپنی خدمات کی پیش کش بھی کرتی نظر آتی ہیں۔ چوں کہ ان پارٹیوں کے پاس نہ تو کوئی اعلٰی نظریہ ہے، نہ لیڈر شپ اور نہ ہی منظم عوامی طاقت۔ یہ جماعتیں مہرے کے طور پر استعمال ہو چکی ہیں۔ اب ان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا گیا ہے۔ اسی لیے یہ غم و غصے میں ہیں۔ کچھ یار دوستوں کو یہ غلطی لگی ہے کہ نواز، زرداری اور مولانا انقلابی ہوگئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے حصے کی وصولی چاہتے ہیں۔ 

    اسٹیبلشمنٹ نے بڑی محنت سے نیا مہرہ تیار کیا ہے۔ اس کو عوامی مقبولیت دلائی، اور عوام، خصوصا نوجوان کو چند سالوں کے لئے مطمئن کر نے کی کوشش کی گئی۔ چوں چوں کا مربہ بنا کر جو قیادت تیار کی گئی ہے، وہ اپنی نا اہلی کی بنیاد پر اپنا سحر کھو چکی ہے، اور  بہت جلد فلاپ ہو جائے گی۔ ایسی قیادتیں ماضی میں بھی پیدا کی جاتی رہی ہیں۔ 

    معاشی، سیاسی، اور سماجی مسائل سے پریشان نوجوان کےسامنے اب کوئی واضح راستہ نہیں ہے۔ وہ اس مجموعی نظام سے مایوس ہے۔ نوجوان سوسائٹی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتاہے، لیکن راہ نہیں پاتا، جس کی وجہ سے وہ مایوسی دلدل میں پھنستاچلا جارہا ہے۔ مسائل میں گھرا ہوا نوجوان اس جہنم سے ہر قیمت پر چھٹکارا چاہتا ہے۔  

    مختلف زبانیں بولنے والے اس خطے کے باسیوں کے مجموعی مسائل تقریباً ایک جیسے ہیں، مثلاً بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا، پنجاب، ہزارہ وغیرہ سبھی جگہ پر عام عوام پسی ہوئی ہے، جبکہ انہی خطوں کے سرمایہ دار نظام سے اپنا حصہ بقدرطاقت وعیاری وصول کر رہے ہیں۔ لیکن موجودہ سیاست کے فرعونوں نےفرعونی نظام کے تاریخی جبر کو اختیار کرنے کی کوشش کی ہے، فرعون نے بھی بنی اسرائیل کے تقسیم کی پالیسی اختیار کی تھی، لہذا یہاں کی عوامی جدوجہد کو دوسری زبان بولنے والوں کے پیچھے لگانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ مظلوم سندھی کو مظلوم پنجابی سے، مظلوم بلوچ کو مظلوم پٹھان سے، مظلوم ہزارے وال کے دل میں مظلوم پٹھان کے خلاف نفرت کی آبیاری کی گئی ہے۔ جب کہ ان تمام زبانیں بولنے والے خطوں کے سرمایہ دار اور حکمران و جرنیل آپس میں شیر و شکر ہیں۔ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ 

    ایسے میں ظالم نظام اور اس سے مفادات اٹھانے والی فوجی، سیاسی اور مذہبی قیادت کے خلاف جذباتیت کی بجائے سیاسی شعور کے ساتھ مزاحمت کو آگے بڑھانا چاہئے۔ مستقبل کی سماجی تشکیل کے نظریے اور باشعور قیادت کی تیاری کے بغیر یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ نوجوان طاقت کو ایک ڈسپلن میں لا کر، ان کی تربیت کر کے گراس روٹ لیول پر آرگنائزیشن کھڑی کر کے، مکمل ہوں ورک کے ساتھ نظام ظلم کو چیلنج کرنا چاہے۔ بغیر تیاری کے جز وقتی اور جذباتی مزاحمت ناکامی کا سبب بنے گی۔ اور نوجوان مایوس ہوگا۔ نوجوانوں کا سیاسی قتل ہوگا، اور فرعونی نظام یہی چاہتا ہے۔ ماضی میں کئی مخلص نوجوان دھوکے کھا کھا کر، جزباتی لیڈرشپ کے پیچھے چل کر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ 

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نوجوان طاقت کو ابوجہل نے مکہ میں مشتعل کرنے کی پوری کوشش کی، صحابہ کو لوٹا گیا، ان کو گھروں سے نکالا گیا، ان کے خاندان کے افراد کو نہایت بے دردی سے قتل کیا گیا۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا واقع بڑا مشہور ہے۔ جماعت صحابہ نے مقابلے کی اجازت چاہی، لیکن قرآن نے کہا کفو ایدیکم۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی بچھائی ہوئی بساط سے اپنی ٹیم کو بچاتے رہے۔ نہ تو اس وقت کی پارلیمنٹ(دارلندوہ) میں  باوجود پیشکش کے شامل ہوئے اور نہ اشتعال میں آئے۔ بلکہ مزاحمتی نظریہ کی بنیاد پر شعوری جدجہد کرتے ہوئے نوجوان طاقت پیدا کرتے رہے۔ اس کی تربیت کرتے رہے۔ جیسے ہی مناسب موقع آیا تو نظام کو ڈھیر کر کے نیا نظام قائم کر دیا۔ اور وہ نظام آگے بڑھ کر انٹرنیشنل ظالم طاقتوں، قیصر و کسری کو بھی شکست دیتا ہے۔ اس نظام کا ہزار سال تک غلبہ اس کی بہترین حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ 

    عدم تشدد کی بنیاد پر تربیت کے ذریعے سے جماعت /طاقت پیدا کرنا ایک صبر آزما کام ہے۔ نوجوانوں کو نعروں کی سیاست سے نکال کر ان کا عقل بلند کرنا، ان کا نظریہ اعلی کرنا، ان میں سیاسی واجتماعی شعوروبصیرت پیدا کرنا اور ان کو استعمال ہونے سے بچانا، یہی کامیاب حکمت عملی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسا لائحہ عمل ہی ایک درست سیاسی، معاشی اور سماجی تبدیلی پیدا کر سکتا ہے۔
    Share via Whatsapp