خوشی
حقیقی خوشی خود سےمحبت و فطرت کےقریب تررہنےسے حاصل ہوتی ہے-
خوشی
(حقیقی خوشی فطرت کے قریب تر رہنے سے حاصل ہوتی ہے)
تحریر؛ انور جاوید ۔ ٹوبہ
کہتے ہیں جس نے خود کو پہچان لیا گویا کہ اس نے خدا کو پہچان لیا۔ بالکل اسی طرح انسان کی حقیقی خوشی کا تعلق اس سے ہےکہ وہ اس کائنات میں اپنی حیثیت ومقام کو پہچانے۔ آپ کے پاس لاکھ دنیا کی آسائشوں کا انبار ہو ۔ آپ حقیقی خوشی کی وہ چاشنی کبھی بھی حاصل نہیں کر پائیں گے جب تک آپ اس کائنات میں اپنے وجود کا درست تعین نہیں کرتے ۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم خوشی کو ان جگہوں پر تلاش کرتے ہیں، جہاں اکثر اوقات خوشی کا وجود ہی نہیں ہوتا۔
خوشی کو انسان ازل سے ہی تلاش کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔خوشی، فطرت کا دوسرا نام ہے۔ان لوگوں کوہمیشہ خوش پایاگیا،جن کی زندگی فطرت کے قریب تر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ غیرفطرتی انداز میں سوچتے ہیں یا پھر ان کا رہن سہن ان کی سوچ کی طرح فطرت سے عاری ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ ناخوش ، مایوس اور بجھے بجھے سے رہتے ہیں- ان کے اردگرد بھی بہت سے لوگ ان کے جیسی ذہنیت کے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ حقیقی خوشی تو درکنار،انسانوں کی ایسی گروہیت تعمیری کام کرنے سے بھی محروم رہ جاتی ہے۔
اس کے برعکس سماج میں وہ لوگ جو غیرحقیقی چیزوں کے بارے نہیں سوچتے۔ یہ لوگ لوگوں کے ساتھ اپناغیر فطرتی موازنہ نہیں کرتے۔ وہ اس چیز پر یقین رکھتے ہیں کہ تفاوت و تنوع( چیزوں کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا) ایک فطرتی عمل ہے اور انسان کبھی کسی کارِفطرت میں مخل نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو ناکامی اس کا مقدر ہوگی۔ ایسا سوچنے سے ان کو اپنی زندگی جینے کا موقع مل جاتا ہے۔ ان کے اندر حسد، بغض اور کینہ جیسے جذبات بھی بہت کم پیدا ہوتے ہیں ۔اسی لیے یہ لوگ حقیقی خوشی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں بہت سے لوگ حقیقی خوشی کو خودغرضی میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ خودغرضی ہر مسئلے کا حل ہے۔ جیسا کہ یہ جملہ مشہور ہے "تجھے پرائی کیا پڑی تو اپنی نبیڑ"۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے لوگ اپنے دعوے میں درست ہیں؟ میرے خیال میں خودغرض انسان اپنی ذاتی تسکین کے لیے ،جھوٹ ، دھوکا، فریب اور ہر قسم کی برائی سے گریز نہیں کرے گا۔ اور دوسرا اصول یہ بھی ہےکہ جو کسی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ خود سکھ کی نیند کبھی نہیں سو سکتا۔ ان فطرتی اصولوں کو مدنظر رکھ کر دیکھیں تو دھوکا دینے والا فرد کبھی سکون اور حقیقی خوشی حاصل نہیں کرسکتا۔ روزمرہ زندگی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ کبھی خود کسی کو دھوکا دے کر دوسرے کی زندگی کو جہنم بنا رہے ہوتے ہیں اور کبھی خودغرضی اور لالچ میں آ کر خود کسی کے فریب میں آ جاتے ہیں یا پھر خودفریبی کا شکار ہو کر حقیقی خوشی حاصل کرنے سے عاری رہتے ہیں۔
صرف وہی لوگ حقیقی خوشی کی چاشنی کو پا سکتے ہیں جو حقیقت پسند ہوں، جن کی زندگی فطرت کے قریب تر ہو،جو اپنےرب سے تعلق کی بناپر مطمئن طبیعت کے مالک ہوں، جو خوش فہمی سے دور اور فہم سے قریب تر ہوں۔ جو دوسرے کو نہ دھوکا دیں اور نہ ہی خود دھوکا کھائیں۔ جو لالچ ، حرص و طمع سے کوسوں دور ہوں۔ جو فطرت کی رضا میں راضی اور آزمائش میں صبر و استقامت سے کام لیں۔وہ بے لوث ہو کر سماج میں اپنی خدمات پیش کریں اور لوگوں سے بات بات پر اجر کے طلب گار نہ ہوں۔ایسے لوگ ہی فطرت اور اپنے آپ کی پہچان کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور یہی بات انھیں حقیقی خوشی حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ ایسے لوگ مشکلات میں بھی مطمئن اور حقیقی خوشی سے بھرپور زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔