بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ
عالمی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، اس لئے کوئی بھی حکمت عملی بناتے وقت دور کے تقاضوں کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ
تحریر: محمد عثمان۔فیصل آباد
عالمی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے لیکن ہمارے دانشوروں کی اکثریت اِس سارے عمل کا کوئی علمی تجزيہ پیش کرنے اور قوم کی درست راہنمائی کرنے کی بجائے حسبِ سابق شخصیات اور واقعات پر چٹکلے بنانے یا سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہے۔
ایک طرف عالمی طاقتوں کا وہ گروپ ہے جس کے پاس اپنی معیشت کی ترقی اور بطور عالمی طاقت اپنی بقاء کے لیے بس یہی حربہ باقی بچا ہے کہ:-
1. دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جائے۔ وہاں اپنےسیاسی،فوجی اور سماجی کارندوں کے زریعے سیاسی تبدیلی پیدا کی جائے۔
2۔ اگر سیاسی تبدیلی ممکن نہ ہو تو وہاں شدت پسند مسلح عناصر پیدا کرکے خانہ جنگی کا ماحول پیدا کردیا جائے۔
3۔ اگر دونوں حربے کامیاب نہ ہو رہے ہوں تو کم از کم اُس ملک پر تجارتی اور معاشی پابندیاں لگا کراُس ملک کی معیشت کو ناکام بنایا جائے اور اس کے نتیجے میں عوام میں بے چینی پیدا کی جائے۔
4۔ کسی مخصوص خطے کے ممالک کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرکے اُنہیں اندرونی و بیرونی طور پر کمزور کیا جائے، اور اپنا اسلحہ اور دیگر خدمات بیچی جائیں۔
5۔ اِن ممالک کی معیشت 2008ء کے بعد سے جس معاشی بحران کا شکار ہے ، یہ بحران کسی صورت قابو میں نہیں آرہا۔ اِس کا آزمودہ حل یہی ہے کہ عالمی سطح پر جنگی فضاء پیدا کی جائے۔ جنگوں کے زریعے نہ صرف اِن ممالک کا اسلحہ بکتا ہے بلکہ تباہ شدہ ممالک کے انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور امداد کے لیے ٹھیکے بھی اِنہیں ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور رفاہی اداروں کو ملتے ہیں۔
6۔ کھلی منڈی کے دعویدار ہونے کے باوجود اپنے حریف ممالک اور اُن ممالک کی کمپنیوں پر تجارتی پابندیاں لگائی جائیں تاکہ کوئی ملک سائنس و ٹیکنالوجی اور معاشیات میں ان کی اجارہ داری کو چیلنج نہ کرسکے۔
دوسری طرف اُن ممالک کا گروپ ہے جن کا پروگرام درج ذیل امور پر مشتمل ہے:-
1۔ بین الاقوامی سطح پر تمام ممالک کے ساتھ تجارتی، ثقافتی اور سفارتی تعلقات کو فروغ دیاجائے۔
2۔ تجارت کو بڑھانے کے لیے زرائع آمدورفت کو بہتر سے بہتر بنایا جائے۔
3۔ ترقی کو کسی خاص ملک یا خطے میں محدود کرنے کی بجائے تمام اقوام کو ترقی کے عمل میں شریک کیا جائے۔
4۔ تمام ممالک میں امن و امان کو بہتر بنانے کے لیے مسلح گروہوں اور انتشار پسند عناصر کو ختم کیا جائے۔
5۔ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔
اِس صورت حال میں بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان پہلے گروپ سے نکل کر دوسرے گروپ کی طرف دھیرے دھیرے بڑھ رہا ہے۔مگر مقتدرہ کےدوٹوک اور واضح وژن نہ ہونےاور عوام کی بے شعوری کی وجہ سے نیم دلی کی کیفیت نمایاں ہے ۔
اندرونی انتشار کے بہت سے مظاہر بالواسطہ اور بلاواسطہ اِسی رَسّہ کشی سے جُڑے ہوئے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کا اصل المیہ یہی ہے کہ فی الحال عملی سیاست میں ہمارے ہاں کوئی ایسی سیاسی اجتماعیت موجود نہیں ہےجو مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ باصلاحیت اور باشعور بھی ہو اور قوم کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ساتھ لے کر چلنے کے قابل ہو۔ جب تک قوم کو ایسی قیادت فراہم نہیں ہوتی تب تک ہم بین الاقوامی سطح پر موجود جغرافیائی مواقع سے بھرپور طور پر فائدہ اٹھانے کے قابل بھی نہ ہوسکیں گے۔
اللہ ربُّ العزت سے یہی دعا ہے کہ پاکستانی ریاست اب کی بار تاریخ کی درست سمت میں کھڑی رہے، انسانیت کی قاتل اور دشمن طاقتوں سے اپنے آپ کو الگ رکھ سکے اور اپنے شہریوں کو امن و امان اور خوشحالی فراہم کرسکے۔