رمضان المبارک اور عیدالفطر کا اجتماعی تقاضا
رمضان المبارک کی جدوجہد اور عیدالفطر کے تہوار کا مقصد تقوی کا حصول اور معاشرے میں اجتماعیت کو فروغ دینا ہے
رمضان المبارک اور عیدالفطر کا اجتماعی تقاضا
تحریر ؛ اسامہ احمد ۔ راولپنڈی
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ایمان والوں پر روزے کی فرضیت کی حکمت بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ کی صفت کا پیدا ہونا ہے۔ اگر تقویٰ کی صفت پیدا نہیں ہوتی تو محض روزمرہ کے کھانے پینے کا ترک، بڑے مقصد کے حصول کے تناظر میں قابل غور ہوسکتا ہے، کیوں کہ فرض کی ادائیگی تو بہرحال ہو ہی جائے گی۔
قرآن حکیم کوئی حکم اس کی حکمت اور اس کے تقاضوں کے بغیرنہیں ہوتا، اس لیے قرآن حکیم نے تقویٰ کے حصول کا طریقہ بھی روزے کی صورت میں بتا دیا۔
اجتماعیت کی اہمیت
قرآن حکیم اجتماعیت کا داعی ہے اور وہ اس کے فروغ کی بات کرتا ہے، جیسے کے سورہ توبہ کی اس آیت میں ہے؛
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
"اے ایمان والو ! اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور سچوں کے ساتھ رہو۔"
اللہ تعالیٰ سے تعلق کی اساس پر، نظامِ عدل کے قیام کے لیے سچوں کی اجتماعیت کا حصہ بنے رہو اور ان کے ساتھ جڑے رہو۔
اجتماعیت سے جڑے رہنا تقویٰ کے حصول کا لازمی جزو ہے، کیوں کہ انسانوں کا اعلیٰ اخلاق کا حامل بننا، اجتماعی ماحول کا متقاضی ہے۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"اخلاق ماحول سے پیدا ہوتے ہیں، علوم سے نہیں"۔ اس لیے انسان کو اعلیٰ اخلاق کا حامل بننے کے لیے اعلیٰ درجے کا اجتماعی ماحول درکار ہے۔
تقویٰ کے حصول کے لیے اس دجل و فریب کے نظام میں بالخصوص، تقویٰ کا حقیقی علم ضروری ہے۔ قرآن حکیم میں تقویٰ کا تعارف یہ ہے :"عدل کرو یہی تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے" ۔
قرآن کریم کی اس آیت سے تقویٰ کا مفہوم عام فہم اور واضح انداز میں سامنے آتا ہے۔ چوں کہ عدل کا تعلق معاشرے میں اجتماعی معاملات اور باہمی تعلقات سے ہے تو گویا تقویٰ انفرادیت اختیار کرنے کا نام نہیں، بلکہ معاشرے کے اجتماعی معاملات میں عدل ہی حقیقت میں تقویٰ ہے۔
عدل کا مفہوم کسی شے کو اس کی حقیقی جگہ پر رکھنا ہے، جب کہ ظلم کا مفہوم کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹانا ہے۔
پیرانِ پیر شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تقویٰ (قرآن حکیم کی آیت سورۃ النحل ؛ 90) میں مذکور حکموں پر عمل کرنے کا نام ہے، جن میں عدل و احسان اہم ہے۔
اِسلام نے اسی تقویٰ کے حصول کے لیے انسان کی مَلکی قوت کو بڑھانے اور بہیمی قوت کو ملکی قوت کےتابع کرنے کے لیے پورا مہینہ روزے کی سرگرمی مسلمانوں پر فرض کی ہے۔ اس کے بعد عیدالفطر کا دن آتا ہے جو کہ اس ساری جدوجہد کے انعام اور خوشی کا دن ہے۔ ہمارے معاشرے کا عصری لحاظ سے عمومی رویہ اس دن کو ضائع کرنا بن گیا ہے۔ حال آں کہ عیدالفطر کا دن تو اجتماعیت قائم کرنے،میل ملاپ بڑھانے،خوشیاں بانٹنے اور رمضان المبارک کی جدوجہد کےعملی اِظہار کا دن ہے۔ معاشی ظلم کو عملاً ختم کرنے کے لیے اسلام نے صدقہ فطر واجب کیا ہے، تاکہ معاشرے میں موجود ظلم سے براءت کا اعلان کیا جاسکے اور عیدالفطر کے دن نئی جہت سے احسان پر مبنی عمرانی معاہدے سے یکساں اور خوش حال اجتماعیت تشکیل دی جاسکے۔ رمضان المبارک اور عیدالفطر کے اجتماعی تقاضوں سے منہ پھیر کر آج ہم رسماً روزہ رکھتے ہیں،اور صدقہ فطر ادا کرتے ہیں۔
آج کی ضرورت!
مسلمان جماعت رمضان المبارک اور عیدالفطر کے اجتماعی تقاضوں کو از سرِنو سمجھے اور اپنی زندگیوں کی انفرادیت سے نکل کر اجتماعیت میں داخل ہوجائے۔ معاشرے میں سیاسی و معاشی اور معاشرتی عدل کے قیام کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ جب کہ یہ انبیا و صدیقین کے مشن اور صادقین کی اجتماعیت کا حصہ بنے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اعلیٰ نظریے کی حامل جماعت کا حصہ بن کر رمضان المبارک کی ریاضت کو اپنایا جائے اور عیدالفطر کے موقع پر خوشیوں اور مسرتوں کا اِظہار کیا جائے۔