مادری، قومی اور بین الاقوامی زبانوں کی اہمیت
زبان رابطے کے لیے ضروری ہے، انگریزی زبان پر عبور عقل و دانش کا معیار نہیں
مادری، قومی اور بین الاقوامی زبانوں کی اہمیت
تحریر: راؤعبدالحمید، لاہور
مادری زبان، وہ زبان ہوتی ہے جو پیدا ہونے والا بچہ سب سے پہلے سُنتا اور محسوس کرتا ہے۔ پیدائش سے پہلے ہی اس زبان کے اَثرات اس کی ماں اور اس کے ماحول کی وَجہ سے بچے کی شخصیت پر مرتب ہوتے ہیں۔وہ اپنے ماحول کی وَجہ سے بہت جلد اسے سیکھ لیتا ہے اور اپنی ایک خاص برادری جو یہ زبان بولتی ہے با آسانی رابطے کے لیے استعمال کرتا ہے۔وہ اپنی ہر ضرورت بآسانی اس سے پوری کرتا ہے۔اسی زبان میں بات کرتا، سوچتا ہے اور خواب دیکھتا ہے۔اپنی زندگی کے سب امور اس زبان میں حل کر لیتا ہے، اگر وہ یہ زبان لکھنا اور پڑھنا بھی سیکھ لے تو اور اچھا ہوجاتا ہے، اپنی ثقافت، روایات اور تاریخی ادب سے بھی جڑتا ہے۔
تعلیم کا اصل ہدف طالب علم کو معلومات دینا، سوچنا سمجھنا سکھانا اور باشعور بنانا ہے۔ انسانی زندگی سے جڑے نظریات سیکھنا، روزمرہ کے امور سمجھنا سمجھانا،معاشی مسائل کا حل نکالنا،ان سب امور میں سب سے اہم تخلیقی صلاحیت ہے۔تخلیقی صلاحیت کی خاص بات یہ ہے کہ اپنی زبان میں سب سے زیادہ پروان چڑھتی ہے۔انسانی توانائی صرف تخلیق پر خرچ ہوتی ہے، ناکہ ایک غیرزبان میں اصطلاحات کو سمجھنے اور بولنے میں صرف ہوجائے۔ تعلیم کا مقصد معلومات،تخلیقی صلاحیت اور شعور و آگہی کا فروغ ہے۔ان کے لیے زبان کی کوئی قید نہیں۔
برعظیم پاک و ہند میں قومی ترقی اور مادری زبان کا بہترین ربط موجودہ ہندوستان کا جنوبی علاقہ ہے،جس میں کیرالہ،تامل ناڈو، تلنگانا، کرناٹکا اور آندھرا پردیش ہیں۔ ان لوگوں کو ہندی بھی ٹھیک سے نہیں آتی، لیکن یہ انڈیا اور باقی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، ان کے مشہور سائنس دان اسی خطے سے ہیں۔
بنیادی تصورات مادری زبان سے جلد سمجھ میں آجاتے ہیں۔ جب ایک طالب علم کے بنیادی نظریات بغیر کسی زبان کے دَباؤ کے وہ سیکھ لیتا ہے تو اس کو کوئی اور زبان سیکھنے میں بھی کوئی دقت نہیں ہوتی۔ میری رائے میں کم از کم پہلے آٹھ درجے (ہشتم تک) تو صرف مادری زبان ہی زیادہ نتیجہ خیز ہوسکتی ہے۔اس کے بعد وہ چاہے جتنی زبانیں سیکھے، اس سے کوئی منع نہیں کرتا، نہ ہی کرنا چاہیے۔ چائنا، جاپان، کوریا، جرمنی کی سائنسی ترقی انھی کی زبان کی مرہون منت ہے۔ہر انسان کو اپنا زیادہ تر وقت اپنے ایک خاص شہر یا ملک میں گزارنا ہے تو اس کی گرفت ان زبانوں پر ہو، جو روزمرہ کے لیے درکار ہیں۔جب تک چائنا کو دوسرے ممالک سے زیادہ رابطے کی ضرورت نہیں تھی تو وہ صرف چینی زبان پر فوکس تھے۔ اَب ضرورت پڑ رہی ہے تو اس نے اپنے لوگوں کو انگریزی سکھانا شروع کی ہے اور ساتھ ساتھ دوسری قوموں کو اپنی زبان سکھانے کی کوشش کر رہا ہے،تاکہ اس کے باشندوں کی صلاحیتیں زبان سیکھنے پر کم صرف ہوں اور عملی کام پر زیادہ۔
جب جب ہم قومی زبان کی بات کرتے ہیں،ہم اس سے مراد اردو لیتے ہیں۔ ہمارا ملک کثیر اللسانی خطہ ہے۔ ہماری قومی زبان اردو اس خطے میں کسی کی بھی مادری زبان نہیں ہے۔ 75 سالوں کی مسلسل کوششوں کے بعد ہی کراچی، لاہور اور اسلام آباد والوں میں اردو نے اپنی جگہ بنائی ہے۔باقی سب تاحال اپنی اپنی زبانوں میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں بڑی زبانیں پنجابی 38.78فی صد، پشتو 18.24 فی صد، سندھی 14.57فی صد،سرائیکی 12.19 فی صد، اردو 7.08 فی صد، ہندکو 3.02 فی صد اور پہاڑی /پوٹھوہاری 2.24 فی صد ہیں۔ پاکستانیوں کو زبان کے حوالے سے انتہائی کش مکش کا سامنا ہے۔ ایک لطیفہ مشہور ہے: "پاکستانی گھر پر اپنی مادری زبان بولتا ہے (پنجابی /پشتو وغیرہ) قومی رابطے کے لیے اردو بولتا ہے، تعلیم انگریزی میں حاصل کرتا ہے اور موت کے بعد حساب عربی میں دے گا" اتنا سارا بوجھ ہر وقت اپنے دماغ پر لیے پھرتا ہے۔
ہمارا خطہ ایک طویل سامراجی تسلط کا شکار رہا۔ انگریز سامراج نے یہاں کے باشندوں میں احساس کمتری کو فروغ دیا۔ انگریزی سیکھنا اور بولنا زیادہ عقل مند تصور ہونا شروع ہوا۔ سر سیداحمد خان کی علی گڑھ تحریک نے اس احساس کمتری کے فروغ میں کافی زیادہ کردار ادا کیا۔ علم،عقل اور شعور ثانوی حیثیت اختیار کر گئے اور انگریزی زبان پہلے درجے پر آگئی۔
انگریزی سیکھنا قطعاً غلط نہیں، اپنی صلاحیت، استعداد اور ضرورت کے مطابق کوئی بھی زبان سیکھنے میں حرج نہیں۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ مان لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ہماری 24 کروڑ لوگوں کی توانائیاں اس زبان سیکھنے میں صرف ہورہی ہیں۔تخلیقی اور شعوری استعداد قابل رحم ہے۔ موجودہ پاکستان کے پچھتر سال اور ماضی کے ڈیڑھ سو سال الگ سے، اگر شامل کریں تو بین الاقوامی زبان بہ طور سلیبس پڑھانے سے قوم کو اَب تک کیاملا؟ سوائے مرعوبیت کے،انگریزی زبان ہم چوبیس کروڑ کو سکھانا چاہتے ہیں اور اس کی ضرورت بہ مشکل چند لاکھ لوگوں کو بھی نہیں،جن لوگوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے، بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کرنا ہے یا کوئی دفتری ذمہ داری ادا کرنی ہے تو ضرور سیکھے، لیکن باقی احساس کمتری کا شکار کیوں ہوں، ہماری فنی تعلیم انجینئرنگ، میڈیکل یا سادہ ایف اے، بی اے میں بھی بہت سے لوگ صرف انگریزی میں کمزوری کی وَجہ سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو قوم کے لیے بروئے کار نہیں لا سکتے۔ اپنے آپ کو کم تر درجے کا شہری تصور کرتے ہیں۔لیکن کیا یہ کامیابی کا معیار ہے تو جواب ہے نہیں!
خلافتِ عثمانیہ کے بعد کمال پاشا نے ترکی میں صرف ترک زبان کو رواج دیا اور انھوں نے عربی ناموں تک کو خیرآباد کہہ دیا، کیا ترکی کا تعارف زوال یافتہ قوم کا ہے؟
یورپ نے تارکین وطن کے لیے ان ہی کی مادری زبانوں میں تعلیم کا نظام بنایا ہوا ہے، جب کہ ان تارکین نے کبھی اپنے ملکوں میں واپس نہیں جانا، چوں کہ یورپ نے ان تارکینِ کی صلاحیتوں کو مستقبل میں استعمال کرنا ہے تو وہ انھیں ان کی مادری زبان میں ہی پڑھا رہا ہے، اسے کام لینا ہے، ناکہ اس کو انگریزی کا مبلغ بنانا ہے۔ہمسایہ ملک بھارت نے اس سلسلے میں ایک اچھا انداز اپنایا جو کہ مولانا ابوالکلام آزاد کا نظریہ لسانیات تھا، انھوں نے کوئی بائیس زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا، اسی میں تعلیم اور حتی کہ مقابلے کے امتحانات تک کا انعقاد کیا جاتا ہے۔وہی پچھتر سال ہمسایہ ملک کے پاس تھے، وہی ہمارے پاس، آج ہمسایہ ملک دنیا کی تیسری بڑی معاشی، سیاسی طاقت ہے اور ہم خیالی دنیا کے باسی۔