حکومت اور عوام
ریاست کو اگر مائیکرو لیول پر گھر کی مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں تو شاید ہمیں آسانی سے سمجھ میں آسکے ۔
حکومت اور عوام
عبدالباسط خان۔دوبئی
ریاست کو اگر مائیکرو لیول پر گھر کی مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں تو شاید ہمیں آسانی سے سمجھ میں آسکے ۔ایک گھر میں لوگ اکٹھے رہتےہیں. سب کی ضروریات ان کو آپس میں جوڑے رکھتی ہیں، گھر کے فیصلے بڑے یعنی ماں باپ کرتے ہیں، بچوں کی تعلیم و پرورش کے لیے اپنے کام بانٹ دیتے ہیں۔ باپ معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے گھر سے باہر جاتا ہے، جب کہ ماں بچوں کی پرورش کے واسطے گھر پر رہتی ہے، یعنی ماں باپ کا مقصد بچوں کو اچھی خوراک، صحت و تعلیم دینا ہوتا ہے ۔بدلے میں بچے ان کی بات کو مانتے ہیں ایک عمر تک ،جب بچے جوان ہو جاتے ہیں تو وہ بھی مشاورت کا حصہ بنتے ہیں اور یوں گھر ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ چلتا ہے۔ یہ ایک خوش حال گھرانہ ہوتا ہے، جہاں بچے اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ معاشرہ کا حصہ بنتے ہیں تو معاشرہ میں وہ عزت ومقام بھی کماتے ہیں۔
اس کے برعکس کوئی گھر تصور کر لیں، جہاں باپ معاشی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہا، ماں بچوں کی پرورش صحیح سے نہیں کررہی، بچپن سے ہی وہ کام پر لگ گئے ،ایسا بچہ بڑا ہو کر ماں باپ کی بات مانیں گا؟ معاشرے میں اس کی کیا عزت ہوگی؟ یعنی ایک مسائل میں گھرا ،بدحال وہ گھرانہ ہوگا۔
بالکل اسی طرح ریاست میں عوام بچے ہیں اور حکومت ماں باپ، جیسے ماں باپ عمل کریں گے ویسی ہی ان کی اولاد ہوگی۔ حکومت اگر عوام کے لیے کام کرے گی تو ٹھیک، ورنہ ملک میں انتشار ہو گا۔ حکومت عوام کی روٹی کپڑا مکان تعلیم و تربیت صحت کے لیے معاشی وسائل بروئے کار لائے گی ان کی ماں کی طرح اچھی تربیت کرے ایک اچھا ماحول (نظام) فراہم کرے گی، جس میں سب انسان برابر کے شہری ہوں یہ نہ ہو جو بیٹا پیسے والا ہے تو اس کی بات مان کر غریب بیٹے پر ظلم کیا جائے، بیٹیوں کو جائیداد سے بے دخل کر دے ،ایک بیٹا اچھے سکول میں پڑھے تو دوسرا سرکاری سکول میں، ایک بیٹے کو ساری جائیداد دے دے اور باقیوں کو عاق کر دے۔ گھر میں رہنے کے ضابطے ایک کے لیے اَور ہوں اور دوسرے کے لیے اور۔ ایسے میں کیا ہو گا اولاد میں سے جس کو عقل آ گئی تو وہ باپ پر لعنت بھیجے گا ۔پہلے تو اس سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرے گا اگر وہ نہیں دے گا تو الگ ہو جائے گا، یعنی گھر ٹوٹ جائے گا یا اس کی دوسری صورت یہ ہوگی کہ اولاد میں سے جس جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ متحد ہوکر باپ اور اس لاڈلی اولاد کی جان کے ہی درپے ہوں ، یا ان سے ان کے فیصلوں کی طاقت چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔
حکومتیں بھی اگر اپنی روش برقرار رکھتی ہیں تو عوام کے پاس حق ہے کہ اپنے اندر تنظیمی طاقت اور صلاحیت پیدا کر کے ان کو اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل کر کے اپنی عوامی حکومت بنائیں۔ جہاں امیر و غریب، کمزور و طاقت ور قانون کی نظر میں برابر ہوں۔ سب کو برابر وسائل و مواقع دیے جائیں، سب کو بہترین تعلیم دی جائے عوام اپنے حق سے غافل نہ ہوں، اپنے حکمرانوں کا احتساب کریں عوام و حکومت ایک دوسرے کے لیے ہیں حکمرانی کوئی خدائی منصب نہیں کہ اَب آپ جو چاہے کریں، بلکہ یہ تو ذمہ داری ہے لوگوں کو جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری، ان کے لیے اچھی تعلیم و تربیت روزگار کی ذمہ داری۔
غرض یہ کہ عوام اور حکومت کوئی الگ الگ شے نہیں ہے ایک تعاون باہمی ہے اگر یہ تعاون نہیں ہو گا تو معاشرہ برباد ہو جائے گا ۔