اسلام اور مغربی فکر
مغربی مفکرین روح کی حقیقت اور اس کے تقاضوں کا ادراک نہیں کر پائے۔ جس کی نتیجے میں انسان کی نامکمل تصویر کشی کی گئی۔
اسلام اور مغربی فکر
تحریر: محمد عثمان بلند۔ کہوٹہ راولپنڈی
نظامِ ظلم وسائل دولت پر اجارہ داری کے لیے انسانی سماج میں گروہیت کو پروان چڑھاتا ہے اور اس عمل کے لیے اس نے ایک فکری بنیاد بھی متعین کی ہوئی ہے۔اس فکری بنیاد کے دو پہلو ہیں ایک پہلو کاتعلق مذہب سے ہے، جب کہ دوسرے کا تعلق انسان کے طبعی تقاضوں سے ہے۔ مذہبی پہلو یعنی شرک ،تقسیم ،تفریق اوراس کی اقسام تو ہماری توجہ کا مرکز رہتی ہیں، لیکن اس فکر کا وہ پہلو جس کا تعلق انسان کے طبیعی تقاضوں سے ہے، اس کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے جوکہ آج کے جدید سماج کی تشکیل میں بنیادی کردار کا حامل ہے۔
اس نکتے کو سمجھنے کے لیے انسان کی ماہیت و ارتقا کے مغربی نقطہ نظر کو سمجھنا اشد ضروری ہے۔
اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں مغربی مفکرین نے انسان اور انسانی سماج کی ماہیت و ارتقا پر کافی بحثیں کیں اور اپنے نقطہ نظر تحریر کیے، جن میں انسان کو جانوروں کی ارتقائی شکل پرزور دیا گیا ہے۔
ان مفکرین نےاس حقیقت کو نظرانداز کردیا کہ انسانوں اور جانوروں میں بنیادی فرق عقل وشعور کا ہے، جب کہ روحِ حیوانی اور اس کے تقاضے یکساں ہیں۔ ان مغربی مفکرین کےافکارکا یہ نتیجہ نکلتاہے کہ انسانی تقاضے محض اِنفرادی بقا سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں،جس کااثراجتماعی ماحول پرمنفی پڑتاہے -اسی لیے مغربی کلچر
میں مادیت کاغلب نظر آتا ہے۔
اور زیادہ سے زیادہ مادی وسائل کا حصول طاقت اور عزت کا معیار قرارپاتاہے۔
اَب اگر محض مادی یا طبیعی تقاضوں کو ہی اصل اور بنیاد مان لیا جائے تو سماج کی ویسی ہی تشکیل ہوگی، جیسا کہ آج کی دنیا میں ہمیں نظر آتی ہے۔ ان تقاضوں کی تکمیل کے لیے ہر طرح کی کش مکش جائز قرار پاتی ہے، ویسے ہی قانون اور نظام بنائے جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ وسائل دولت پر قبضہ وسائل کا احتکار و اکتناز اور اس سب کے لیے ویسے ہی قوانین اور نظام کی تشکیل کی جاتی ہے۔
اس اِنفرادی یا گروہی فکر کی بنیاد پر قائم نظام میں اخلاقیات کا پہلو مادی تصورات کےتابع ہوتا ہے۔ اپنی بقا کے لیے دوسرے کو روند کر آگے بڑھنا، دھوکا دینا، جھوٹ وغیرہ سب جائز قرار پاتا ہے، بلکہ اس سب کو ایک قانونی شکل دے کر تحفظ فراہم کرنا بھی لازمی قرار پاتا ہے۔ طاقت ور گروہ کا اقتدار میں رہنا بھی اسی کا لازمی نتیجہ ہے۔
اسی کمزور اور نامکمل فکر کے ڈانڈے شرک سے بھی جاملتے ہیں۔ کائنات اور انسانیت کا محض مادی تصور اس بات کا متقاضی ہے کہ کچھ مادی اشیاء یااشخاص کو خدا یا طاقت ور تصور کرلیا جائے ۔ہر دور میں اس کے مختلف مظاہر تھے اور آج کے دورمیں اس کا مظہر سرمایہ ہے۔قرآن کہتا ہے!
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ ؕ ثُمَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ یَعۡدِلُوۡنَ۔( سورة الانعام )
ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں، جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا پھر بھی کافر لوگ ( غیراللہ کو ) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں ۔
اگر انسان کو نئی اور مکمل تخلیق تصور کرلیا جائے جس میں روحِ حیوانی اور عقل کے ساتھ ساتھ روحِ ملکوتی کو بھی ایک اہم عنصر مان لیا جائے تو صورتِ حال بالکل بر عکس ہو جائے گی۔ روحِ ملکوتی کا ربط یقیناً کسی اعلیٰ و برتر ذات سے ہی ممکن ہے۔ کیوں کہ روحِ حیوانی اس کے تابع ہے۔ اس طرح اس کا تقاضا جوکہ اجتماعیت ہے، اِنفرادیت پر غالب آ جائے گا۔ ایک کامل اور برتر ذات اللہ تعالیٰ سے ربط کے نتیجے میں اس روح کے خلق (اخبات،طہارت،سماحت اور عدالت) ظاہر ہوں گے۔
اس طرح انسان کے طبیعی تقاضے اس کے نوعی تقاضوں کے زیرِ اثر آ گئےاور نوعی تقاضے اخلاقیات کے ذیل میں آگئےاور عقل ان کے معاون کے طور پر آگئی۔
یہ ہے وحدت کا وہ الٰہی نظریہ ہے جس کی دعوت و قیام کے لیے انبیا علیہم السلام کو مبعوث کیا گیا۔
تاریخی اعتبار سےدیکھا جائے تواس فکروفلسفہ پر قائم سماج و معاشرے عدل و احسان کا گہوراہ بن گئے۔
اس فکر پر قائم سماج میں کش مکش کے بجائےباہمی تعاون، اجارہ داری کے بجائے انفاقِ مال، طبقاتیت کے بجائےمساوات،حسد کے بجائےاخوت نظر آئے گی۔
سماج میں فکری وحدت کے نتیجے میں عملی وحدت نظر آئے گی۔ بدامنی ، بے چینی اور افلاس نظر نہیں آئے گا۔
مغربی مفکرین روح کی حقیقت اور اس کے تقاضوں کا ادراک نہیں کر پائے، جس کی نتیجے میں انسان کی نامکمل تصویر کشی کی گئی، جس سے ایسا سماج وجود میں آیا جوکہ انتشار اور گروہیت کا نمونہ بن گیا۔ جب کہ الوہی فکر جو انبیا علیہم السلام کے ذریعے انسانیت کو دیا گیا، ایک مکمل اور جامع فکر ہے، جس کے نتیجے میں قائم ہونے والا سماج جنت کا نمونہ پیش کرتا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا نوجوان مغرب سے مرعوب ہونے کے بجائےاصل اور جامع فکر کی طرف متوجہ ہو اور اس کی بنیاد پر سماج کی تشکیل کرے۔