بارش، ایک بوڑھا شخص… اور ایک ظالم نظام
میری زندگی میں کئی منظر گزرے، لیکن ایک منظر ایسا ہے جو آج بھی میری روح میں پیوست ہے۔ یہ بچپن کی بات ہے۔ سردیوں کی رات تھی، بارش زوروں کی ہو رہی تھی۔

بارش، ایک بوڑھا شخص… اور ایک ظالم نظام
تحریر: حذیفہ بٹ – نارووال
میری نگاہوں میں کئی منظر گزرے ہیں ، دنیا کے ہر ملک میں جس طرح تیزی سے غربت کے ساتھ ساتھ بےبسی اور بے حسی بھی بڑھ رہی ہے۔ یعنی کسی شاعر کے بہ قول منظر یوں ہوچکا ہے۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
اسی طرح ایک منظر ایسا ہے جو آج بھی میری روح میں پیوست ہے۔یہ میرے بچپن کی بات ہے۔ سردیوں کی رات تھی، بارش زوروں کی ہو رہی تھی۔میری عمر شاید دس یا گیارہ سال تھی۔میں گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک بوڑھا شخص سڑک کنارے پڑا نظر آیا۔ نہ کوئی چادر، نہ پناہ، نہ مددگار۔ وہ بارش میں بھیگ رہا تھا، زمین پر لیٹا، خاموش، بےبس۔
ایک لمحے کے لیے میں رک گیا
میں نے بس اتنا سوچا:
"یہ بھی انسان ہے… اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟"
دل نے بہت چاہا کچھ کروں۔ لیکن میرے پاس کچھ نہ تھا۔
میں بچہ تھا، خود بھی وسائل کی کمی کا شکار گھرانے سے تھا۔
بس دکھ کے ساتھ واپس گیا۔ پوری رات وہ بوڑھا شخص میرے ذہن میں رہا۔
اگلے دن جب دوبارہ اسی جگہ گیا —
تو سنا وہ مر چکا تھا۔
یہ پہلا دن تھا جب مجھے سمجھ آیا کہ
ہم صرف غربت میں نہیں مر رہے… ہم ایک بے حس ظالم نظام کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔
وہ نظام جس میں:
ہماری تمام تر حسیات کو رفتہ رفتہ کچلا جا رہا ہے
اگر کوئی لاوارث بوڑھا شخص بارش میں مرتا ہے،تو کہیں چند لوگ اگر تدفین کا بندوبست کرلیں تو ٹھیک ورنہ کوئی باضابطہ نظام نہیں نظر آتا ۔
اوپر کے اعلیٰ اہلکاروں کی بےحسی یا بے بسی پورے ادارے کو بے حس بنا دیتی ہے ۔
اگر کوئی ریسکیو (سرکاری یا غیر سرکاری) ادارے کو بلاؤ،تو وہ کہتے ہیں: "یہ ہمارا کام نہیں ہے۔"
اگر کسی کو اسپتال لے جاؤ،تو وہ کہتے ہیں: "پہلے پیسے دو، شناختی کارڈ دو، ورنہ واپس جاؤ"
اگر کوئی انسان سڑک پر پڑا ہو،تو معاشرہ اسے "چرسی، نشئی، بھکاری، تاڑی" کا نام دے کر فارغ کر دیتا ہے۔
میں نے نارووال میں ریلوے اسٹیشن کے نیچے کچھ غریب خانہ بدوش لوگوں کو دیکھا —
خاندان کے خاندان بارش میں، گندگی میں، ننگی زمین پر لیٹے ہوئے۔
چھوٹے بچے، بیمار ماں باپ، بھوکے چہرے، مچھر، سردی، بےبسی۔
کیا یہ انسان نہیں ہیں؟
یہ کس گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں؟
کیا پاکستان اور باقی دنیا میں عیش و آرام صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جوملکوں اور قوموں کے استحصال سے اپنی دولت اور طاقت بڑھاتے جارہے ہیں۔ محنت کشوں کی کمائی لوٹ کر ان کی قسمت میں بے بسی لاچاری کا فیصلہ لکھ دیتے ہیں؟
یہ صرف ایک بوڑھے شخص کی کہانی نہیں، یہ ہمارے اس عہد کی کہانی ہے جو اکیسویں صدی میں بھی ہمارے وسائل لوٹ کر ہمیں تہی دامن کر رہا ہے ۔اور یہ ہمارے ملک میں موجود بوسیدہ گلے سڑے نظام کا مکروہ چہرہ ہے،
جس کا دامن محنت کش کے خون سے داغدار ہے، لیکن لگتا ہے کہ جیسے خون کے دھبے مٹانے کی کوشش کی گئی ہو ۔
کیا ہم ہر غریب کو پناہ نہیں دے سکتے۔
ہر بوڑھے کو کمبل نہیں دے سکتے۔
یہ کام ہم ضرور کر سکتے ہیں:
اس پورے سڑے ہوئے، ظالم، مردہ نظام کو جڑ سے بدل سکتے ہیں۔
ایسا نظام جو:
انسان کو شناختی کارڈ سے نہ تولے
غربت کو جرم نہ سمجھے
کسی بوڑھے کو بے کسی میں مرنے نہ دے
کسی بچے کو گندگی میں کھیلنے پر مجبور نہ کرے
اور ریسکیو کرنے والے ادارے سوال نہ کریں کہ "آپ نے ہمیں بلایا کیوں؟"
میں آج بھی وہ بوڑھا شخص نہیں بھولا۔
شاید وہ اسی لیے میری زندگی میں آیا تھا
تاکہ میں خاموش تماشائی نہ بنوں۔
میں نے طے کیا ہے کہ میں یہ آواز اٹھاؤں گا
اپنا فرض نبھاؤں گا۔
یہ نظام بدلے گا میرا یہ یقین یہ بھروسہ ہے
اگر ہم یہ فریضہ ادا نہیں کرتے تو پھر
ہم کسی بارش میں ایسے ہی بے بس اور لاچار پڑے ہوں گے…
یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ ہمیں محض منظر کشی نہیں کرنی ہمیں ایسے تمام اداروں کا قانونی محاسبہ کرنا ہے، جو ہمارے ٹیکس اور تعاون سے چلتے ہیں ۔ ان سے بد عنوان عناصر کے خاتمے کے لیے کوشش کرنی ہے ۔
ساتھ ساتھ ہمیں قومی رضاکارانہ خدمات کے لیے نوجوان میں جذبہ بھی بیدار کرنا ہے۔ یہ ہے وہ جذبہ اور کردار جو ہم میں ہمت اور حوصلے کو بحال کرکے مایوسی دور کرے گا ۔
اور کوئی بچہ پھر یہی سوال نہیں کرے گا:کہ
" ہم نے اس کے لیے کیا کیا؟"