پروپیگنڈا اور اِنفرادی اِصلاح کانظریہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پروپیگنڈا اور اِنفرادی اِصلاح کانظریہ

    پروپیگنڈا اور اِنفرادی اِصلاح کانظریہ

    By اظہر گوپانگ Published on Jul 07, 2025 Views 229
    پروپیگنڈا اور اِنفرادی اِصلاح کانظریہ
    تحریر: اظہر حسین۔ راجن پور 

    پروپیگنڈا ایک ایسا عمل ہے، جس میں معلومات یا خیالات کو اس انداز میں پھیلایا جاتا ہے کہ وہ عوام کی رائے یا جذبات پر اَثر ڈالے۔ اس کا مقصد کسی مخصوص نظریے یا گروہ کی حمایت حاصل کرنا یا مخالف کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔انفرادی اصلاح کا پروپیگنڈا (personal development) ایک ایسا طریقہ ہے، جس میں عوام کو اِنفرادی سطح پر اپنی شخصیت، کردار، یا عادات تبدیل کرنے پر زور دیا جاتا ہے ، اس کا مقصد ہمیشہ ان کی ذاتی بھلائی نہیں ہوتی، بلکہ اس سے سیاسی، سماجی یا نظریاتی مقاصد وابستہ ہوتے ہیں۔ 
    اِنفرادی اِصلاح کا پروپیگنڈا کرنے کےلیے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں، جیسا کہ شرمندہ کرنا، مثالی شخصیت بناکر پیش کرنا، تعلیم، مذہبی نجات، میڈیا اور اخلاقی فریضہ کا استعمال کرنا۔ 
    مثال کے طور پر اگر کوئی شخص بے روزگار ہے، تو اِنفرادی اِصلاح کا پروپیگنڈا کہے گا: "اس نے محنت نہیں کی، خود کو بہتر نہیں بنایا۔"، مگر حقیقت یہ ہے کہ ملازمتیں ہی دستیاب نہیں، یا نظام میرٹ پر کام نہیں کررہا۔
    آج ہمارے معاشرے میں مختلف جملے بول کر اور نعرے لگا کر نوجوانوں کو اُلجھایا جاتا ہے۔ ہر روز سامراج اور اس کے اعلیٰ کارندے میڈیا، سوشل نیٹ ورکس اور تعلیمی نظام کے ذریعے نوجوانوں کی سوچ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جذباتی نعروں، جھوٹے وعدوں اور وقتی نعروں کے ذریعے انھیں حقیقت سے دور رکھا جاتا ہے۔ ہر روز نئے بیانیے اور نعرہ کے ساتھ لنگرانداز ہوتے ہیں، تاکہ وہ اپنے اصل دشمن کو پہچان نہ سکیں۔ ان کی توانائیاں غیرضروری بحثوں اور مصنوعی اختلافات میں ضائع ہوجاتی ہیں۔ 
     ہر دور میں مفادپرست اورطاقت ور لوگ جب دیکھتے ہیں کہ ان کے مفادات کی دکان بند ہورہی ہے تو وہ عوام الناس میں پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے جب الٰہی نظام کی دعوت دی اور باطل نظامِ زندگی پر تنقید اور اس کی مذمت کی،اور قوم کے سامنے دعوتِ حق اورسماجی و معاشرتی نظام پیش کیا، تو وہاں کے سردار اور وڈیروں کو اپنا نظام زندگی اور اجارہ داریاں خطرے میں نظر آنے لگیں تو انھوں نے عوام میں اس قسم کا پروپیگنڈا کیا کہ اللہ پاک اگر کسی نبی کو بھیجتا تو وہ کسی فرشتے کو بھیجتا، ایک انسان جو ہماری طرح کھاتا پیتا اور عام انسانوں کی طرح زندگی بسر کررہا ہے، وہ نبی کیسے ہوسکتا ہے۔ مقصد اس سے عوام کے ذہنوں میں اُلجھن  پیدا کرنی ہوتی ہے، تاکہ جاگیردار، سرمایہ دار اور موجودہ دور کی ظالمانہ ملٹی نیشنل کمپنیاں مل کر گٹھ جوڑ کرکے وسائل پر قابض رہیں ۔
     اکثر اوقات حکومتوں یا طاقت ور اداروں کی طرف سے عوامی رائے کو متاثر کرنے، حب الوطنی اُبھارنے، یا کسی مخصوص بیانیے کو فروغ دینے کے لیے پروپیگنڈےکاسہارا لیاجاتا ہے۔
    جرمنی میں ہٹلر اور جوزف نے نازی پارٹی کے نظریات و ایجنڈے کو فروغ دینے، یہودیوں کے خلاف نفرت اورجرمن قوم کی برتری کوفروغ دیا۔
    جنگ عظیم دوم(1939-1945) کے دوران عوامی حمایت حاصل کرنے کےلیے امریکا نے دشمن کو شیطان بنا کر پیش کیا اور جنگی فنڈز جمع کرنا۔"Uncle Sam" کی تصاویر، جاپانی اور جرمن دشمنوں کی نفرت انگیز خاکے بناکر عوام میں پھیلائے۔ 
    برصغیر میں اِصلاحِ فرد کی تحریکیں (کچھ دینی، کچھ ریاستی) ہر دور میں چلتی رہی ہیں۔ برطانوی راج کے زمانے میں "تہذیب سیکھو"، "جدید بنو" جیسی تحریکیں، جہاں مقامی افراد کو مغربی طرزِ زندگی یا زبان سیکھنے پر زور دیا گیا۔
    بعض ریاستی یا دینی حلقے میڈیا یا درس و تدریس کے ذریعے "نیک مسلمان"، "مغرب سے بچنے والا نوجوان" جیسے مثالی کردار تراشتے ہیں، جو مثالیت پسندی کی علامت ہے۔
    پاکستان میں ہر سطح پر سیاسی اور نام نہاد مذہبی طبقہ نے اپنے مفادات سمیٹنے کےلیے پروپیگنڈا کو فروغ دیا ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں عوامی حمایت حاصل کرنے کےلیے اور بھارت اور پاکستان میں کسی بھی طرح کی چھوٹی کشیدگی اور جھڑپ کو اتنا بڑے کرکے قوم کے سامنے پیش کیا جاتا رہا کہ عوام اُلجھ کر رہ گئی۔ 2014ء میں ففتھ جنریشن وار فیئر کے نام سے نوجوانوں کو پوسٹ ٹروتھیا بناکر آنے والے الیکشن میں اپنے مفادات کو سمیٹا گیا۔ 
    حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری ؒفرماتے ہیں:
    ”آج یہ کہا جاتا ہے کہ ہم درست ہوجائیں  تو سب ٹھیک ہوجائے گا، یہ خلافِ فطرت ہے۔ عوام تو رائج نظامِ ظلم اور حکمران طبقے کے اَثرات کو قبول کرتے ہیں“۔ 
    ایک پروپیگنڈا یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہر فرد خود کو ٹھیک کرلے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اس طرح اجتماعیت کی نفی کی جاتی ہے۔ صرف فرد کی اِصلاح کو نظام کی اِصلاح پر فوقیت دینااجتماعیتسےفرار ہے، کیوں کہ نظام اجتماعیت سے چلتا ہے۔ جب معاشرہ ایک ظالمانہ اور استحصالی نظام کے تحت چل رہا ہو، تو صرف فرد کو بہتر بنانے کی تلقین کرنا، اس حقیقت سے چشم پوشی کے مترادف ہے کہ اصل خرابی کی جڑ وہ نظام ہے، جو افراد کو ظلم سہنے یا ظلم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ ڈھانچے میں عوام کی حالتِ زار، ان طبقات کی پیداوار ہے جو اقتدار اور دولت پر قابض ہیں اور باقی معاشرے کو محض اپنی خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
    ایسا پروپیگنڈا بہ ظاہر فرد کی فلاح کا نعرہ ہوتا ہے، مگر اس کا اصل مقصد افراد کو ایک خاص سانچے میں ڈھال کر ریاستی یا نظریاتی کنٹرول کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ 
    سرمایہ دارانہ نظام میں دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتی ہے، جب کہ باقی عوام مزدوری، مہنگائی اور بنیادی سہولیات کی قلت کا شکار رہتے ہیں۔ اسی طرح جاگیردارانہ نظام میں زمینوں کی ملکیت چند خاندانوں تک محدود رہتی ہے اور کسان نسل در نسل غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں کا گٹھ جوڑ ایسا معاشرہ تخلیق کرتا ہے۔ جہاں انصاف، مساوات اور آزادی صرف نعرے بن کر رہ جاتے ہیں اور عوام کو یہی سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنی حالت پر قناعت کریں یا ذاتی اِصلاح سے نظام کی خرابی کا حل نکالیں۔ 
    امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی فرماتے ہیں۔ 
    "فرد کا صالح ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ وہ جماعت کا اچھا جزو ہو۔ اچھی جماعت وہ ہے جو قوم سے تضاد نہیں، بلکہ مطابقت رکھتی ہو۔ اچھی قوم اسے کہیں گے جو کل انسانیت کے جزوِصالح کا حکم رکھتی ہو۔ اِنفرادیت ان معنوں میں کہ ہر فرد،ہر جماعت اور ہر قوم ایک دوسرے سے برسرِنزاع ہو، غلط اور مردود ہے"۔ 
    اسلام میں اِنفرادی اصلاح کی بڑی اہمیت ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اجتماعی اصلاح اور عدل کا قیام بھی لازم ہے:
    "تم بہترین امت ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے، نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو..."(سورۃ آل عمران: 110) 
    یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اِصلاح کا کام فرد کی حد تک محدود نہیں — معاشرے کو بھی درست کرنا فرض ہے۔
    سماجی سطح پر اصلاح کایہ نظام افراد کی سوچ اور اقدار کو اس طرح ڈھالتا ہے کہ وہ ظلم کو معمول سمجھنے لگتے ہیں۔ تعلیم، میڈیا اور مذہب کا استعمال کر کے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ موجودہ نظام ہی فطری اور درست ہے اور جو کوئی اس کے خلاف آواز بلند کرے وہ فتنہ پرور ہے۔ ایسے میں فرد کو قصوروار ٹھہرانا غلط ہے، جب کہ اصل مسئلہ اس کے اردگرد کے استحصالی ڈھانچے میں نہ صرف چھپا ہوتا ہے، بلکہ ظالم کےظلم کو دوام دینے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس لیے اصلاحِ فرد کے ساتھ ساتھ اصلاحِ نظام اور طبقاتی استحصال کا خاتمہ بھی لازم ہے۔
    Share via Whatsapp