ذہنی اور جسمانی محنت(درست زاویہ نگاہ کی ضرورت) - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ذہنی اور جسمانی محنت(درست زاویہ نگاہ کی ضرورت)

    محنت کو ہمارے معاشرے میں نظر انداز کیا جاتا ہے، جسے ہمارے تعلیمی نظام اور میڈیا نے ذہنی اور جسمانی محنت میں تقسیم کر کے حقیر بنا دیا

    By محمد عیسٰی قاسمی Published on Jul 11, 2025 Views 244
    ذہنی اور جسمانی محنت(درست زاویہ نگاہ کی ضرورت)
    محمد عیسٰی قاسمی ، ڈیرہ اسماعیل خان

    محنت کی عظمت:
     محنت نہ صرف ہمارے معاشرے کے بنیادی ڈھانچے سے جڑی ہے، بلکہ ہماری سوچ، تربیت اور نسلوں کے مستقبل کو بھی متاثر کرتی ہے ۔ یہ محنت ہمارے بچپن سے ہمارے ذہنوں میں ایک خاص رنگ میں رنگ دی جاتی ہے جو ہمارے معاشرتی رویوں کی وَجہ سے اپنی قدر کھو بیٹھتی ہے۔ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنے اور اس نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہےجو کچھ پیشوں اور محنت کے بارے میں ہمارےاندر حقارت پیدا کرتا ہے۔
    ابتدائی کلاسوں ہی سے اساتذہ یہ نصیحت کیا کرتے ہیں کہ "پڑھ لو، ورنہ مزدوری کرنی پڑے گی" یا "پڑھائی پر توجہ دو، نہیں تو چرواہوں کی طرح بکریاں چراتے رہو گے"۔ یہ جملے بچے کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتےہیں۔ یہ جملے ایک ایسی سوچ کے بیج ہیں جو بچےکےذہن میں لاشعوری طور پر کاشت ہوتےہیں۔یہ سوچ بچےکو یہ سکھاتی ہےکہ جسمانی محنت، مزدوری،یا کوئی ہنر جو ہاتھوں سے کیا جاتا ہے، وہ کمتر ہے، وہ ناکامی کی علامت ہے، وہ اس شخص کی شناخت ہے جو "کچھ نہ بن سکا۔" یہ سوچ بچےکےذہن میں ان پیشوں سےنفرت پیدا کرتی ہے۔
    جن بچوں کے والدین  مزدور ہیں۔ وہ مستری کا کام کرتے ہیں ، مکان بنانے کا کام کرتے ہیں، فرنیچر کا کام کرتے ہیں۔ ان کی محنت، ان کا پسینہ، ان کی مشقت ان کے گھر کی بنیاد بنتی ہے۔ لیکن اسکول میں سنی جانے والی باتیں بچے کےذہن میں یہ خیال بٹھا دیتی ہیں کہ یہ کام، یہ محنت، یہ پیشہ کوئی قابل نفرت ہے۔ایسے بچے کو جب کوئی یہ کہتا ہےکہ "تم اگر یہ ہنر سیکھ لیتے جو تمھارے والد جانتے ہیں، تو تمھارا مستقبل سنور جاتا،" تو بچےکےذہن کے اندر ایک عجیب سا احساس جاگتا ہے۔ وہ احساس نہ تو فخر کا ہوتاہے نہ اطمینان کا، بلکہ شرمندگی کا بلکہ شرمندگی کاہوتاہے۔ یہ شرمندگی کہیں نہ کہیں اس تعلیمی نظام سے جڑی ہوتی ہے، جس نے بچےکو یہ سکھایا کہ محنت صرف کتابوں میں گھس کر، امتحانات میں نمبر لے کر، یا دفتری کرسی پر بیٹھ کر کی جاتی ہے۔ جسمانی محنت، ہاتھوں سے کیا جانے والا کام، وہ تو گویا محنت ہی نہیں، بلکہ ایک سزا ہے، ایک ناکامی ہے۔
    یہاں سے ہمارے معاشرے کی ایک حقیقت سامنے آتی ہے۔ ہمارا معاشرہ، ہماری تعلیم، ہمارے اساتذہ اور ہمارے میڈیا نے مل کر ایک ایسی نفسیاتی دیوار کھڑی کی ہے جو محنت کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔
    ذہنی محنت اور جسمانی محنت: 
    ذہنی محنت کو عزت دی جاتی ہے، اسے ترقی کی سیڑھی سمجھا جاتا ہے، جب کہ جسمانی محنت کو حقیر سمجھا جاتا ہے، اسے ناکامی کا نشان قرار دیا جاتا ہے۔ یہ تقسیم صرف ایک معاشرتی رویہ نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی جبر ہے جو ہماری سوچ کو محدود کرتا ہے، ہمارے بچوں کے ذہنوں کو مسموم کرتا ہے اور ہمارے معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو اس کی محنت کی قدر سے محروم رکھتا ہے۔
    محنت کی تحقیر:
    اَب ذرا اس بات پر غور کریں۔ ایک نوجوان، جو ایم اے پاس ہے، اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک چھوٹی سی ریڑھی لگاتا ہے۔ وہ چنے بیچتا ہے، یا سموسوں کا کاروبار شروع کرتا ہے۔ جب میڈیا والے اس سے انٹرویو لینے آتے ہیں، تو اس سے کیا سوالات پوچھے جاتے ہیں؟ "آپ نے ایم اے کیا اور اَب ریڑھی لگائی؟" "کیا اس ملک نے آپ کی قدر نہیں کی کہ آپ کو یہ کام کرنا پڑا؟" "کیا آپ کے گھر کے حالات اتنے خراب تھے کہ آپ کو یہ راستہ اختیار کرنا پڑا؟" یہ لہجہ،یہ سوالات، یہ جملے، کیا بتاتے ہیں؟
     یہی کہ اس معاشرے میں ریڑھی لگانا، چنے بیچنا، یا کوئی ہاتھ کا کام کرنا ایک کمتر عمل ہے۔ یہ ایک ایسی ناکامی ہے جس پر ہمدردی ظاہر کی جاتی ہے، لیکن اس ہمدردی کے پیچھے ایک گہری حقارت چھپی ہوتی ہے۔ اس ہمدردی کا اصل پیغام یہ ہے کہ "تم نے اتنی تعلیم حاصل کی اور پھر بھی یہ کام کر رہے ہو؟" گویا یہ کام، یہ محنت، یہ ہنر کوئی عزت والا کام ہی نہیں ہے۔
    یہ نفسیاتی رویہ ہمارے معاشرے کی ایک خامی کو عیاں کرتا ہے کہ ہم نے محنت کو عزت دینا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے اسے ایک ایسی چیز بنا دیا ہے جو صرف کتابوں تک، امتحانات تک، یا دفتری کرسیوں تک محدود ہے۔ لیکن وہ کسان جو صبح سویرے اٹھ کر زمین سے خوراک اُگاتا ہے، وہ مزدور جو ہمارے گھروں کی بنیادیں کھڑی کرتا ہے، وہ چرواہا جو ہمارے لیے دودھ اور گوشت کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے، وہ عورت جو ہمارے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ کیا ان کی محنت کمتر ہے؟ کیا ان کا کام عزت کے قابل نہیں؟ یہ سوال نہ صرف ہمارے معاشرتی ڈھانچے پر ایک سوالیہ نشان ہے، بلکہ ہماری اپنی اقدار پر بھی ایک گہرا سوال اٹھاتا ہے۔
    دیکھا جائے، تو محنت ایک ایسی عالمگیر حقیقت ہے جو انسانیت کی بقا کی بنیاد ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو ہمیں فطرت سے جوڑتا ہے، جو ہمیں اپنی ذات سے آگاہ کرتا ہے، جو ہمیں دوسروں کے ساتھ ایک سماجی رشتے میں باندھتا ہے۔ لیکن جب ہم محنت کو صرف ذہنی دائرے تک محدود کر دیتے ہیں، تو ہم نہ صرف اس کی عالمگیر حیثیت کو کم کرتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس انسان کی عزت بھی کم کرتے ہیں جو اپنے ہاتھوں سے، اپنے پسینے سے، اپنی مشقت سے اس معاشرے کو چلاتا ہے۔ نفسیاتی طور پر، یہ رویہ ہمارے اندر ایک ایسی کمی پیدا کرتا ہے جو ہمیں اپنی جڑوں سے کاٹ دیتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ محنت صرف وہ ہے جو دماغ سے کی جائے، لیکن وہ محنت جو جسم سے کی جاتی ہے، گویا وہ کوئی محنت ہی نہیں۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو نہ صرف ہمارے بچوں کے ذہنوں کو محدود کرتی ہے، بلکہ ان کے اندر ایک ایسی نفرت بھی پیدا کرتی ہے جو انہیں اپنے معاشرے کے ایک بڑے حصے سے الگ کر دیتی ہے۔
    دوسرابڑاظلم یہ کےکہ ہمارے ملک میں جسمانی محنت کو، اس قدر کمتر بنا دیا ہے کہ اس کی قیمت ہمارے معاشرے میں کچھ بھی نہیں رہ گئی۔ ایک مزدور جو آٹھ گھنٹے کمر توڑ محنت کرتا ہے، وہ جب اپنے مالک سے سات سو روپے مانگتا ہے، تو اسے یہ کہا جاتا ہے کہ "اتنی محنت کا صلہ سات سو روپے بھی نہیں بنتا"۔ یہ سوچ کہاں سے آتی ہے؟ یہ اس معاشرے سے آتی ہے جس نے محنت کی عزت کو چھین لیا ہے۔ یہ اس تعلیمی نظام سے آتی ہے جس نے ہمیں یہ سکھایا کہ محنت صرف کتابوں میں گھس کر کی جاتی ہے۔ یہ اس میڈیا سے آتی ہے جو ہر اس شخص کو کم نظری سے دیکھتا ہے جو اپنے ہاتھوں سے محنت کرتا ہے۔
    اور یہ سوچ صرف مزدوروں تک محدود نہیں۔ جب ہمارے اسکولوں یا کالجوں کے نتائج آتے ہیں اور کوئی غریب گھرانے کا بچہ، مثلاً ایک ریڑھی والے کا بیٹا، ٹاپ کرتا ہے، تو ہم اسے ایک معجزے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں، "واہ! ریڑھی والے کے بیٹے نے ٹاپ کر لیا!" لیکن اس واہ کے پیچھے کی حقیقت یہ ہے کہ ہم لاشعوری طور پر یہ مانتے ہیں کہ ریڑھی والے کا بیٹا ٹاپ کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ اگر اس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا، تو اس نے کوئی غیرمعمولی بات کر دکھائی۔ یہ رویہ نہ صرف اس بچے کی محنت کو ایک معجزے کے طور پر پیش کرتا ہے، بلکہ اس کے والد کے پیشے کی بھی تحقیر کرتا ہے کہ ریڑھی والا، یا مزدور، یا کسان، یا چرواہا، وہ لوگ ہیں جو کامیابی کے قابل ہی نہیں ہیں۔ ان کے بچوں کی کامیابی ایک معجزہ ہے۔
    قابلِ غور بات:
     ہمارا معاشرہ محنت کو عظمت عطا نہیں کرسکا ہم اپنی نسلوں کو یہ سکھا رہے ہیں کہ ہر وہ کام جو ہاتھوں سے کیا جاتا ہے، وہ کمتر ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں محنت کی عزت نہیں، جہاں ہاتھ سے کام کرنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھایا جاتا ہے، جہاں صرف وہ لوگ قابل عزت ہیں جو دفتروں میں بیٹھ کر، یا سوشل میڈیا پر ویڈیوز بنا کر پیسہ کماتے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ شارٹ کٹس کے ذریعے، ٹک ٹاک پر، یوٹیوب پر، فیملی وی لاگنگ کے ذریعے لاکھوں کما رہے ہیں۔ اور ہم انہیں عزت دیتے ہیں، ان کی تعریف کرتے ہیں، انھیں کامیاب سمجھتے ہیں۔ لیکن وہ مزدور، وہ کسان، وہ چرواہا جو صبح سویرے اُٹھ کر ہمارے لیے خوراک پیدا کرتا ہے، ہمارے گھر بناتا ہے، ہمارے بچوں کی دیکھ بھال کرتا ہے، اس کی عزت کہاں ہے؟ اس کی محنت کی قیمت کہاں ہے؟
    اس کایہ معنی نہیں کہ ذہنی محنت کی کوئی اہمیت نہیں۔ یقیناً تعلیم، علم اور دفتری کام اپنی جگہ اہم ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم جسمانی محنت کو حقیر سمجھیں۔ دونوں قسم کی محنت ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ان دونوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک کسان کے بغیر ہمارا معاشرہ بھوکا رہ جائے گا۔ ایک مزدور کے بغیر ہمارے گھر نہیں بنیں گے۔ ایک چرواہے کے بغیر ہمارے بچوں کو دودھ نہیں ملے گا۔ تو پھر ہم کیوں ان کی محنت کو کمتر سمجھتے ہیں؟ کیوں ہم اپنے بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ یہ کام ناکامی کی علامت ہیں؟ کیوں ہم اپنے معاشرے میں ایک ایسی سوچ کو فروغ دیتے ہیں جو محنت کی عزت کو چھین لیتی ہے؟
     ہمیں ایک معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت ہےجو ہر قسم کی محنت کی عزت کرنے کاحامل ہو، جو ہر پیشے کو وقار کی نظر سے دیکھے، جو یہ سمجھے کہ محنت، خواہ وہ ذہنی ہو یا جسمانی، انسانیت کی بنیاد ہے؟
    Share via Whatsapp