صحت افزا سیاحت سےالمناک اور خونی سیاحت تک
صحت افزا سیاحت سےالمناک اور خونی سیاحت تک

صحت افزا سیاحت سےالمناک اور خونی سیاحت تک
تحریر: محمد اصغر خان سورانی۔ بنوں
پاکستان کی برف پوش چوٹیاں، صاف و شفاف جھیلیں، پربتوں سے گرتے بلند وبالا آبشار اور سر سبز و شاداب وادیاں ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہیں۔قدرت نے اس خطے کو بے مثال حسن اور دلکش مناظر سے نوازا ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے جنت کا منظر پیش کرتے ہیں۔ شمالی علاقہ جات کی بلند و بالا چوٹیاں، سوات، کاغان اور نیلم کے دلفریب مناظراور گلگت بلتستان کی خوب صورت فلک بوس پربت اور نیلگوں جھیلیں پاکستان کو سیاحت کا مرکز بناتی ہیں۔ کبھی سیاحت محض تفریح نہیں، بلکہ روحانی، تہذیبی اور فطری شعور کا ذریعہ تھی، جہاں سیاح محدود تعداد میں سہی، منظم انداز اور تجربہ کار گائیڈز کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ وہ مقامی ثقافت، رسم و رواج اور ماحولیات کا احترام کرتے، اپنی موجودگی سے کسی کو تکلیف نہ دیتے اور قدرتی حسن کو محفوظ رکھتے تھے۔ ان کا سفر تیز رفتاری یا شور شرابے سےبھرپور نہیں ہوتا، بلکہ ہر مقام پر ٹھہر کر، سکون اور غور و فکر کے ساتھ اللہ کی تخلیق کا مشاہدہ کرتے تھے، جس سے سیاحت ایک بامقصد اور باوقار تجربہ بن جاتی تھی۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو سیاحت کبھی روح کی تسکین، دل کی تسلی اور قدرت کی عظمت کا مشاہدہ کرنے کا ذریعہ تھی، آج وہی سیاحت المناک حادثات اور انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن رہی ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستان میں سیاحت کے دوران سات بڑے حادثات پیش آئے، جس کے نتیجے میں درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ان حادثات میں گاڑیوں کا گہری کھائیوں میں گرنے، کشتی الٹنے سے ڈوبنے، گلیشیر گِرنے سے دَب جانے اور سیلابی ریلوں میں بہہ جانے کے دردناک واقعات شامل ہیں۔
خونی سیاحت کی بنیادی وجوہات:
• موجودہ دور میں سیاحت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ بیش تر سیاح محفوظ سفر کی اہمیت سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہیں۔ وہ سیاحتی مقامات کو محض تفریح، تصاویر اور سیلفیاں بنانے کی جگہ سمجھتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ان مقامات میں قدرتی خطرات بھی ہم رنگ سانپوں کی طرح چھپے بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تصاویر اپ لوڈ کرنے کا جنون اتنا بڑھ گیا ہے کہ لوگ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بھی "پرفیکٹ شاٹ" لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حال آں کہ یہ رویہ انتہائی خطرناک ہے۔
• سیاح پہاڑی راستوں کی پیچیدگیوں اور قدرتی آفات کے امکانات سے مکمل طور پر واقف نہیں ہوتے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ پہاڑی علاقوں میں موسم کتنی تیزی سے تبدیل ہوسکتا ہے، گلیشیر کب اور کیسے گِر سکتے ہیں اور مون سون میں دریاؤں میں اچانک سیلابی ریلے کیسے آسکتے ہیں۔ یہ ناواقفیت انھیں غلط فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہے اور خطرناک حالات میں پھنس جاتے ہیں۔
• سیاح عموماً ایک ہی وقت میں مشہور مقامات پر جانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سیاحتی مقامات پر بے قابو بھیڑ لگ جاتی ہے، جس سے انتظامی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور سیاح گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے ہوتے ہیں۔
• لمبے سفر کے دوران ڈرائیورز کی تھکاوٹ اور نیند بھی سیاحتی حادثات کا سب سے بڑا سبب ہے، اس کے علاوہ بہت سے ڈرائیور پہاڑی علاقوں میں تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہیں، خطرناک اوور ٹیکنگ کرتے ہیں اور محفوظ فاصلہ برقرار نہیں رکھتے۔ یہ تمام عوامل مل کر سڑک حادثات کا باعث بنتے ہیں۔
• کچھ سیاح حفاظتی سامان کا استعمال نہیں کرتے یا اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ پانی میں جانے والے سیاح لائف جیکٹ نہیں پہنتے، پہاڑی علاقوں میں محفوظ بوٹس نہیں پہنتے اور ہنگامی صورتِ حال کے لیے ضروری سامان اپنے ساتھ نہیں رکھتے ۔ یہ کمی چھوٹے سے چھوٹے حادثے کو بھی بڑا بنا دیتی ہے۔
مسائل کا جامع تدارک:
حکومتی سطح پر فوری اقدامات
• حکومت کو فوری طور پر سیاحتی مقامات کے لیے ایک جامع اور مؤثر پالیسی بنانی چاہیے۔ اس پالیسی میں سیاحتی مقامات کی درجہ بندی، خطرناک علاقوں کی نشان دہی اور مختلف موسمی حالات میں سفر کی اجازت یا پابندی کے واضح اصول شامل ہونے چاہئیں۔ یہ پالیسی صرف کاغذی نہیں، بلکہ اس کی سخت نگرانی کرنی چاہیے۔ سیاحتی مقامات پر داخلے کے لیے بنیادی حفاظتی تدابیر کو لازمی قرار دینا چاہیے۔
• مخفوظ سفر کے لیے سڑکوں کا بہتر ہونا ضروری ہے ۔ اس لیے تمام سیاحتی مقامات تک پہنچنے والی سڑکوں کی بہتر اور کشادہ کرنا چاہیے۔ پہاڑی راستوں پر مضبوط حفاظتی باڑ لگانا، واضح سائنیج کا نظام قائم کرنا اور خطرناک موڑوں پر انتباہی نشانات لگانا ضروری ہے۔
• تمام اہم سیاحتی مقامات پر 24 گھنٹے فعال ہنگامی خدمات کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ ہنگامی صورتِ حال کے لیے ہیلی کاپٹر کا ہونا ضروری ہے، حکومت کوچاہیے کہ سیاحتی مقامات کے لیے یہ سہولت ضرور مہیا کریں۔اس کے ساتھ ساتھ طبی امداد، ریسکیو آپریشن اور فوری نقل و حمل کی سہولیات شامل ہونی چاہئیں۔
• حکومت کو محفوظ سفر کی اہمیت پر وسیع پیمانے پر تعلیمی اور آگاہی مہمات چلانی چاہئیں۔ اس میں ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبارات، اور سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔
• سیاحتی مقامات پر جانے والے افراد کو بنیادی حفاظتی تدابیر، ہنگامی صورتِ حال میں کیا کرنا چاہیے اور کون سے سامان اپنے ساتھ رکھنا ضروری ہے، اس کی تفصیلی معلومات فراہم کرنی چاہئیں۔
• ضلعی انتظامیہ کو تمام سیاحتی مقامات پر مسلسل نگرانی کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ اس کے لیے مقامی پولیس، ریسکو 1122 اور رضاکار تنظیموں کا تعاون حاصل کرنا چاہیے۔ خاص طور پر پیک سیزن کے دوران اضافی عملہ تعینات کرنا چاہیے۔
• پہاڑی راستوں پر سخت ٹریفک کنٹرول اور رفتار کی حد مقرر کرنا انتہائی ضروری ہے اور اس کی سخت نگرانی کرنی چاہیے۔ خطرناک موڑوں پر رفتار کم کرنے کے لیے اسپیڈ بریکرز لگانا چاہیے۔ رات کے وقت خطرناک راستوں پر ٹریفک کی آمد و رفت کو محدود طور پر بند کرنا چاہیے۔
• تمام سیاحتی مقامات پر کام کرنے والے مقامی گائیڈز کو لازمی تربیت اور لائسنسنگ کے عمل سے گزارنا چاہیے۔ اس تربیت میں محفوظ سفر کی تدابیر، ہنگامی صورتِ حال میں کیا کرنا چاہیے، بنیادی طبی امداد اور مقامی خطرات کی تفصیلی معلومات شامل ہونی چاہئیں۔
• ہنگامی صورتِ حال کے لیے ایک مربوط کوآرڈینیشن سسٹم بنانا چاہیے جو تمام متعلقہ اداروں کو فوری طور پر متحرک کر سکے یہ کام ضلعی انتظامیہ کا ہے اس حوالے سے اس کو ضروری ٹریننگ دینی چاہیے۔
• پی ڈی ایم اے کو موسمی تبدیلیوں، قدرتی آفات اور دیگر خطرات کے بارے میں فوری اور درست معلومات فراہم کرنے کا مؤثر نظام قائم کرنا چاہیے۔ اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے اور مقامی ریڈیو، ٹیلیویژن اور سوشل میڈیا کے ذریعے فوری طور پر انتباہ پھیلانا چاہیے۔
ریسکیو فورس کی اہم ذمہ داریاں:
ریسکیو فورس کو تمام سیاحتی مقامات تک فوری رسائی اور بہترین ریسکیو آپریشن کے لیے مکمل طور پر تیار رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مختلف قسم کے حادثات کے لیے مخصوص ٹیمیں تشکیل دینی چاہئیں اور انھیں باقاعدہ تربیت دینی چاہیے۔ سمندری و دریائی علاقوں کے علاوہ پہاڑی اور برفانی علاقوں میں ریسکیو کے لیے مختلف قسم کی ٹیکنیکس اور حفاظتی سامان کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ ریسکیو فورس کو جدید ترین سامان اور ٹیکنالوجی فراہم کرنی چاہیے۔ اس میں ہیلی کاپٹر، پیشہ ورانہ ڈائیونگ ایکوپمنٹس، پہاڑی علاقوں میں کام آنے والی رسیاں اور سیڑھیاں، جدید کمیونیکیشن سسٹم اور طبی امداد کا جدید سامان شامل ہے۔ خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں کام کرنے والی ریسکیو ٹیموں کو راک کلائمبنگ اور ماؤنٹین ریسکیو کی خصوصی تربیت دینی چاہیے۔ پانی میں ہونے والے حادثات کے لیے واٹر ریسکیو کی مہارت اور جدید سامان ضروری ہے۔ ریسکیو سٹیشنز کو اہم سیاحتی مقامات کے قریب قائم کرنا چاہیے، تاکہ وقت کی بچت ہو سکے۔
مقامی لوگوں کا اہم کردار:
مقامی لوگوں کو قدرتی خطرات اور ہنگامی حالات کے بارے میں فوری اطلاع دینی چاہیے۔ اگر کوئی گلیشیر کمزور ہو، دریا میں سیلابی ریلہ آنے کا امکان ہو، یا کسی اور خطرے کا اندیشہ ہو تو فوری طور پر متعلقہ اداروں اور سیاحوں کو آگاہ کرنا چاہیے۔
_مقامی لوگوں کا تعاون _
مقامی لوگوں کو ریسکیو فورس کے آنے تک متاثرہ افراد کی مدد کرنی چاہیے۔ ان لوگوں کو سیاحتی مقامات کی صفائی، ماحولیات کی حفاظت اور قدرتی خوب صورتی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھیں سیاحوں کو ماحولیات کی اہمیت سمجھانی چاہیے اور کچرا پھیلانے سے روکنا چاہیے۔
سیاحوں کی ذاتی ذمہ داریاں:
سیاحوں کو سفر سے پہلے مکمل تیاری کرنی چاہیے۔ اس میں منزل کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنا، موسمی حالات کا جائزہ لینا، محفوظ راستوں کا پتہ لگانا اور ضروری سامان کی فہرست بنانا شامل ہے۔
سیاحوں کو محفوظ سفر کے تمام اصولوں کی سختی سے پابندی کرنی چاہیے۔ اس میں مناسب رفتار سے سفر کرنا، حفاظتی سامان کا استعمال، خطرناک مقامات سے دوری اور مقامی لوگوں کی راہ نمائی کو سنجیدگی سے لینا شامل ہے۔سیاحوں کو اپنی حدود کو سمجھنا چاہیے اور اپنی صلاحیت سے زیادہ خطرناک کام نہیں کرنا چاہیے۔