استعمار پرستانہ تعلیمی نظام اور قومی قیادت کی ضرورت
پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام کی تاریخ اور پاکستان میں رائج نوآبادیاتی تعلیمی نظام کے اثرات
استعمار پرستانہ تعلیمی نظام اور قومی قیادت کی ضرورت
تحریر؛ اورنگزیب خان؛ (پشاور یونیورسٹی)
ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنی رعایا کو مفت تعلیم مہیا کرے ۔ انگریز سامراج کی ہندوستان آمد اور قبضے سے پہلے مملکت کے تمام شہریوں کو تعلیم مفت دی جاتی تھی۔حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ امرا بھی اپنی جائدادیں تعلیم کے لیے وقف کرتے تھے۔ ایک انگریز الگزنڈر ہملٹن اپنے سفرنامہ میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے زمانے کا ذکر کرتے ہیں کہ اس دور میں ٹھٹھہ شہر میں مختلف علوم و فنون کے کم و بیش 400 کالجز تھے۔ اسی طرح مسٹرکیربارڈی میکس مولر کا حوالہ نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوستان پر برطانوی عمل داری سے قبل صرف صوبہ بنگال میں 80,000 کالجز تھے ۔
برطانوی لٹیروں کی ہندوستان آمدکا مقصد چوں کہ اس خوش حال اور ترقی یافتہ خطے کو اپنے استعماری مقاصد کی بھینٹ چڑھاکر اسے غلام بنانا تھا۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ اس خطے کے باسیوں کو آزادانہ سوچ سے محروم کرکے غلامانہ اندازِفکر اختیار کرنے پر مجبور کردیا جائے۔لہٰذا اس خطے میں ایسے غلامانہ نظامِ تعلیم کو رواج دیا گیا، جس نے نہ صرف ہندوستانیوں سے آزادی کا شعور چھین لیا، بلکہ انھیں انگریز کی غلامی پر قناعت کرنے پر مجبور کردیا گیا۔یہ اسی استعمار پرست تعلیمی نظام کا نتیجہ تھا، جس کے نتیجے میں ہندوستان میں ایسےایسے مفکرین بھی پیدا ہوئے کہ جو انگریز کے تسلط کو سایہ خداوندی قرار دینے اور اس بدیسی تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے والے حریت پسندوں کو "غدار" قرار دینے سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔
اس مقصد کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے زمانہ اقتدار میں اپنے عہدیداران کی ایک کمیٹی بنائی، جس کا اجلاس 7 مارچ 1835ء کو لارڈ میکالے کے زیر صدارت ہوا ۔اس کے نتیجے میں جو تعلیمی پالیسی ہندوستان کے لیے وضع ہوئی اس میں انگریزی زبان کو تمام علوم کے حصول کے لیے ضروری قراردیا گیا۔اَب ہندوستان کا تمام علمی و سیاسی ورثہ تو فارسی زبان میں تھا، لیکن اس پالیسی کے نتیجے میں تمام ہندوستانی تعلیمی طور پر جاہل قرار پائے۔اَب تعلیم یافتہ ہونے کے لیے ضروری ٹھہرا کہ انگریزی زبان سیکھی جائے، یوں جو بھی اس زبان سے بے بہرہ رہا وہ غیرتعلیم یافتہ قرار دیا گیا۔
اس طرح انگریزی طرزِتعلیم کے لیے انگریز کے پروردہ مشنری ادارے بنائے گئے اور طرفہ تماشہ ملاحظہ ہو کہ ان اداروں میں خاص طور پرایک مخصوص کلاس ہی کے لوگوں کو انگریزی میں تعلیم فراہم کی گئی، جنھوں نے اس خطے میں استعماری تسلط کے لیے معاون کا کردار ادا کرکے بڑے بڑے خطابات اور جاگیریں سمیٹی تھیں۔اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان میں انگریزی آلہ کاری کا ایک باضابطہ کلچر وجود میں آگیا، جس نے اس خطے میں جاری تحریک آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
اوریہ سب دراصل نتیجہ تھا لارڈ میکالے سکیم کی رپورٹ میں شامل اس حکمتِ عملی کا جس کے مطابق وہ کہتا ہے کہ " ہمیں ایسی جماعت بنانی چاہیے کہ جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی ہو، مگر مذاق ، رائے الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو"۔لہٰذا برطانیہ کے رائج کردہ تعلیمی نظام نے ہندوستانی عوام کی نفسیات پر بہت بُرے اَثرات مرتب کیے، وہ لوگ جو انگریزی تعلیم حاصل کرتے تھے، وہ اپنے شان دار ماضی اور عظیم تاریخی روایات پر فخر کرنے کے بجائے انھیں اپنے لیے باعث شرمندگی سمجھنے لگے۔نام نہاد عقلیت پرستی اور خیالی تصورات پر مشتمل تعلیمی نصاب کی بدولت مذہب بیزاری عام ہونے لگی، جدیدسائنس اور علوم و فنون کے بجائے انگریزی کلچر کے فروغ کو تعلیمی عمل کا حصہ بنانے کے نتیجے میں سرکار پرستی اور انگریز مرعوبیت نے نہ صرف اخلاقی بے راہ روی کا راستہ ہموار کیا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوم کے اندر سے آزادی و حریت کے جذبات کو سرد کرنے میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔گویا اسی تعلیمی نظام نے ایک ایسا طبقہ پیدا کرلیا، جسے برطانوی استعمار نے اپنا آلہ کار بنا کر اس خطے کو غلام بنا نے کےاپنے مذموم مقاصد کو خوب خوب پورا کیا۔
اس خطے کے آزادی و حریت پسند طبقات کی مزاحمت کے نتیجے میں 1947ء میں جب برطانیہ کو اس خطے سے جانا پڑا تھا۔اَب اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں کم ازکم ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک آزاد و خودمختار قوم کے شایانِ شان تعلیمی نظام وضع کیا جاتا، لیکن یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ گزشتہ 75 سال سےنہ صرف وہی استعماری نظام تعلیم ہماری سوسائٹی پر مسلط ہے، بلکہ وہی مخصوص کلاس بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے، جسے انگریز نے خاص طور پر اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پیدا کیا تھا۔آج بہ ظاہر نہ تو ایسٹ انڈیا کمپنی موجود ہے اور نہ تاجِ برطانیہ کا براہِ راست تسلط، لیکن یہ کس قدر بھیانک صورتِ حال ہے کہ آج بھی لارڈمیکالے کی تیار کردہ تعلیمی پالیسی کے تحت ہی اس مملکت کا تعلیمی نظام چل رہا ہے۔یہی وَجہ ہے کہ اس نظامِ تعلیم نے سماج کو دو واضح اطوار میں ڈھال دیا ہے۔ایک طرف تو وہ اشرافیہ کا طبقہ ہے جو اسی انگریز نواز تعلیمی نظام کا پروردہ اور جدی پشتی استعمار کا نمک خوار ہے۔یہی طبقہ اپنے بدترین آلہ کار کردار کی وراثت تھامے ہوئے استعماری مقاصد کے سامنے آج بھی سجدہ ریز ہے تو دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل وہ طبقہ ہے جو اس استعماری نظام تعلیم کی وَجہ سے آج بھی یورپ و امریکا سے مرعوب ہےاور سرمایہ داریت کے نظام ِ جبر کو انسانی بقا کا ضامن سمجھتا ہے۔ یہ نام نہاد پڑھا لکھا نوجوان قومی آزادی کے تصور سے مکمل بے بہرہ، دینی اقدار وروایات سے مکمل نابلد، یورپ کی سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول کے بجائے یورپین کلچر اور ان کی طرز پر عیش وعشرت کا دلدادہ اور پرلے درجے کا مفادپرست اور انفرادیت پسند ہے،اس لیے اس استعمار پرست نظامِ تعلیم کے ہوتے ہوئے آزادی و ترقی کا حصول محض ایک دیوانے کاخواب تو ہوسکتا ہے ، اس کا عقل وشعور سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
انگریز کی پروردہ آلہ کار قیادت گزشتہ 75 برسوں سے دورِغلامی کے نظامِ تعلیم کو بدلنے سے دانستہ گریزاں ہے اور کیوں نہ ہو،اس کے تمام تر مفادات جو اس غلامانہ دور کے فرسودہ ڈھانچے ہی کی بقا سے جڑے ہوئے ہیں۔یہی وَجہ ہے کہ آج ہمارے سما ج کی تعلیمی صورتِ حال ایک بدترین انسانی المیے کی صورت اختیار کرچکی ہے۔بامقصد علم کی فراہمی تو درکنار ، نام نہاد تعلیم بھی سرمائے کی تحویل میں آکر کمرشلائز ڈ ہوچکی ہے۔اور سماج میں تعلیم برائے فروخت کے لیے کھمبیوں کی طرح سر اُٹھاتے مختلف تعلیمی برانڈز کے سسٹمز نے تو حد ہی کردی کہ اس کے نتیجے میں نودولتیوں کا ایک اور ایسا طبقہ بھی وجود میں آچکا ہے جو سرمایہ دار اور جاگیر دار کی طرح ہی" تعلیمی استحصال" کی ایک نئی بھیانک شکل میں سماج میں موجود ہے اور یوں استعماری نظام تاریخ کی بھیانک ترین شکل میں آج ہماری سوسائٹی پر مسلط ہے۔
یہ اسی استعماری نظامِ تعلیم کا شاخسانہ ہے کہ ہماراسماج ایک قابل،باصلاحیت اور حقیقی قیادت سے محروم ہے۔آج ہمارے ملک کی اعلیٰ تعلیم کے نگران بھی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام نہ تو اچھے طالب علم پیدا کرسکتاہے اور نہ ہی اچھے شہری ، یہ اَور بات ہے کہ ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کے یہ بیانات محض اپنی ناکامیوں کے اعترافات کی حد تک ہی محدود ہیں اور وہ اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی کوئی بھی سنجید ہ کوشش کرنے سے قاصر ہیں ، ہاں! یہ ضرور ہے کہ وہ ان عہدوں سے جڑے مفادات کے حصول کویقینی بنانے میں اپنی تمام تر کاوشیں اورمقتدر طبقات سےاپنے تعلقات کوضرور بروئے کار لاتے ہیں۔
اس لیے آج ملک میں سب سے بڑا بحران ایک اہل، باشعور اور دردمند قیادت کا ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ دینِ اسلام کے فکروفلسفے کا شعور حاصل کیا جائے اور اس کے مطابق سماجی تشکیل کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔یادرہے کہ دینِ اسلام احکاماتِ خداوندی کی بجاآوری اور رسول اکرم ﷺ کی سنتِ مقدسہ کی اتباع کے ذریعے بلاتفریق رنگ،نسل اور مذہب کے کل انسانیت کی خدمت سے عبارت ہے ۔یہی وَجہ کہ تاریخ انسانی کے ہر دور میں دین اسلام کے نام لیواؤں نے دور کے طاغوتوں اور استعماری طاقتوں کا قلع قمع کیا اور انسانیت کو اس کے چنگل سے نجات دِلا کر عدل و انصاف کی دولت سے مالا مال کیا گیا۔اس لیے آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ دینِ اسلام کے اسی پیغام ِ فکروعمل کو حرزِ جان بنا کر بدیسی سامراجی قوتوں اور ان کے گماشتہ" دیسی استعماریوں" نیزان کے قائم کردہ اجتماعی ڈھانچے کے تسلط کے خلاف قومی قیادت کی تیاری کے ذریعے شعوری مزاحمتی عمل اختیار کیا جائے، تاکہ ہماری قوم بھی ظلم و جبر سے نجات حاصل کرے اور چین و سکھ کا سانس لے سکے۔