سنتِ الٰہی و قدرتِ الہٰی کا تعارف - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سنتِ الٰہی و قدرتِ الہٰی کا تعارف

    سنت الہی و قدرت الہی اور درست توازن

    By Mehmood ul hassan Published on Feb 19, 2023 Views 1813
    سنتِ الٰہی و قدرتِ الہٰی کا تعارف
    تحریر: محمودالحسن، راولپنڈی

    قدرتِ الٰہی
     اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا،اس لیے تخلیقی اعتبار سے اس کائنات کا ایک ذرہ بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا۔ اور اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی منشا ہوتی ہے کسی کام یا امر کی تو اللہ تعالیٰ صرف حکم فرماتے ہیں کہ ہو جا تو وہ ہوجاتا ہے۔ یعنی اسے کسی بھی مرحلے میں کسی بھی چیز کی محتاجگی نہیں ہوتی ۔
    اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو عدم سے وجود بخشا تو جو اللہ چاہیں اس کائنات میں کر دیں،کچھ بھی اس میں مانع نہیں ہوسکتا۔یہ اللہ قادرِ مطلق کی قدرت کاملہ ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی شان والے اس کے واحد مالک ہیں۔
    سنتِ الٰہی 
    اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا اور اس کائنات کو بہت عمدہ اور منظم طریقے پر تخلیق کیا۔اس کائنات میں کوئی چیز بھی بے ترتیب نہیں، بلکہ ہر کام کے کچھ اصول و ضوابط مقرر کردیے گئے ہیں۔ 
    قرآن و حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس کائنات کے متعلق کوئی فیصلہ فرماتے ہیں تو سب سے پہلے وہ تجلی کی صورت میں اعلیٰ ترین فرشتوں پر نازل ہوتا ہے اور پھر درجہ بدرجہ اس کائنات کے فرشتوں تک پہنچتا ہے اور وہ اس پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ 
    اس سارے نظام کو شاہ ولی اللہ رح نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے لیے جو اصول و ضوابط متعین کیے ہیں ان کو سنت اللہ کہتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتے ہیں کہ سنت اللہ تبدیل نہیں ہوتے۔ یعنی یہ اصول طے کر دیے گئے ہیں۔ اَب اس کائنات میں جو بھی نتیجہ آئے گا انھی اصولوں کے تحت آئے گا۔
    مددِالٰہی اور عذابِ الٰہی 
    جیسا کہ ہمارے علم میں آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اصول طے فرما دیے ہیں تو جب اللہ تعالیٰ اس دنیا میں کسی جماعت کی مدد فرماتے ہیں تو وہ انھی کائناتی اصولوں کے مطابق فرماتے ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ غیرکائناتی اصولوں پر ان کے دشمنوں کو ہلاک کردیا جائے اور وہ اچانک بیٹھے بٹھائے کامیاب ہوجائیں۔ تو جو جماعت اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ان اصولوں کو سمجھ کر ان پر جس قدر عمل پیرا ہوگی،اتنی مدد ان کو حاصل ہوجائے گی۔ لیکن عمل کرنا ضروری ہے، جس طرح کامیابی کے اصولوں میں سے ایمان لانا یقین کامل اور بلند نصب العین رکھنا، عمل صالح یعنی جد وجہد کوشش کرنا ، امانت و دیانت قائم رکھنا، عدل و انصاف قائم کرنا،عقل و شعور اور احساس و ادراک وغیرہ جیسے اصول اختیار کرنا ہی کامیابی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ 
      ایسے ہی جس قوم پر عذاب نازل کیا جاتا ہے تو وہاں بھی یہ کائناتی عمل کارفرما ہوتا ہے اور جن کائناتی اصولوں کو پامال کرنے سے عذاب آیا اگر ان کی پامالی سے باز آکر درست اصولوں کو اپنا لیں گے تو عذاب دور ہوجائے گا۔
    یہ سب معاملات کائنات کے ساتھ آپس میں گہرا ربط قائم کیے ہوئے ہیں۔
     اس امر کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ عذاب یا مدد جو آتی ہے وہ ایسی نہیں ہوتی، جس کا اس کائنات سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اور دوسرا یہ کہ عذاب یا مدد کے اصول متعین ہیں، اَب جو چاہے ان کو سمجھ کر ان سے فائدہ حاصل کرے یا نظرانداز کر کے اپنے لیے نقصان کا سامان کرے۔
    مدد و عذاب کی اقسام اور مثالیں
    عام مدد و عذاب 
    جب مدد یا عذاب عمل کے براہِ راست نتیجے کے طورپر آتےہیں ۔
    عام انسان عمل اور اس کے نتیجے کے تعلق کو سمجھ سکتے ہیں اور یہ مدد یا عذاب لازمی آتے ہیں۔ مثلاً عدل نہ کرنے سے معاشرے میں بدامنی اور خوف،معاشی بداخلاقیوں کے نتیجے میں بھوک، اسی طرح طہارت کے اصولوں کو اپنانے سے بیماریوں سے تحفظ اور اجتماعی طور پر کام کرنے (ٹیم ورک) سے نتائج کا بڑھ جانا وغیرہ۔
    خاص مدد و عذاب
     مدد اور عذاب کا ایک خاص نظام بھی ہے۔ جب ایک اجتماعیت مسلسل اچھائی کے لیے کوشاں یا برائی پرعمل پیرا رہے تو پھر رب کائنات کی طرف اس کے حق یا مخالفت میں فیصلے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کائنات میں جو صفات نازل ہوتی ان کو تجلیات کہتے ہیں۔ اسی میں سے کچھ تجلیات مفید اجتماعیت کے حق میں اور فاسد اجتماعیت کے خلاف بھی کام کرتی ہیں۔ ان میں سے چار اہم کیفیات کا تعارف شاہ ولی اللہ رحمۃاللہ نے کرایا ہے۔
    1۔ قبض: سکڑاؤ اور کمی پیدا ہونا۔
    2۔ بسط: پھیلاؤ اور بڑھوتری ہونا۔
    3۔ اھالہ: ایک شئی سے دوسری میں بدلنا۔
    4۔ الہام: علم کا حاصل ہونا۔
    ان تجلیات کا کائنات میں مختلف انداز سے ظہور ہوتا ہے۔ مثلاً: مفید اجتماعی اقدامات سے پھیلاؤ ہونا اور اس سے زیادہ نتیجہ خیز ہونا،  بہ نسبت فاسد اجتماعیت کے اقدامات کے وہ بے اَثر ہوجاتے ہیں۔ 
    اہالہ کے نتیجے میں فاسد اجتماعیت نے جو اسباب اپنے مفاد کے لیے تیار کیے ہوتے ہیں وہ ان کی تباہی کا سامان بن جاتے ہیں۔
    اور الہام سے مفید اجتماعیت قبولیت حاصل کرتی ہے ان کی محبت لوگوں کے دِلوں میں ڈال دی جاتی ہے۔ 
    اسی طرح موسم کی شدت کا بڑھ جانا، زلزلہ زمین کی ٹکڑیوں کی حرکت میں بسط، اس اور قحط کبھی بارشوں میں کمی یا بارشوں کے بہت زیادہ ہو کر فصلوں کو تباہ کرنے کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں، یہ سب ان کیفیات کا نتیجہ ہیں۔ تجلیات کا جب اس کائنات پر نزول ہوتا ہے تو سنت الہی کے مطابق فرشتے ان کو نافذ کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
    درست توازن:
     اللہ تعالیٰ کی قدرت کو جاننے کے بعد درست عمل کے لیے سنت اللہ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اگر کسی کو صرف اللہ کی قدرت کا ہی تعارف کرایا جائے۔ باوجود یہ کہ قدرت پر ایمان لانابھی ضروری ہے،اسی طرح سنت اللہ قانونِ الٰہی جس کا دوسرا نام شریعت بھی اگر اس کا انکار ہو اور سنت اللہ سے غافل ہو تو وہ بے کار بن کے بیٹھ جائے گا اور اس انتظار میں ہوگا کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ہی کر دیں گے اور اس کو کچھ نہ کرنا پڑے۔ یہ تو سنت انبیائے علیہم السلام کے بھی خلاف ہے، کیوں کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام دنیا میں شرائع دین کے ترجمان اور رہنما بن کر آتے ہیں اور یہی عملی نظامِ حیات استوار کرتے ہیں ۔
    اس طرح جس قوم کا شعور دین کے نام پر کم کر دیا جائے اور سنت اللہ اور سنت انبیائے کرام علیہم السلام ہٹادیا جائے تو پھر وہ عذاب اور مدد کے ایسے تصورات میں پڑ جاتے ہیں جو خیالی اور من گھڑت ہوتے ہیں،جن کا سنت اللہ یا کائناتی عمل سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ 
    اگر کوئی ان کو زلزلے کی وَجہ سے زمین کی ٹکڑیوں کا حرکت کرنا بتا دے تو وہ یہ نہیں سمجھ پاتے،اس کائنات میں جاری سنت اللہ کی وَجہ سے جو عذاب آئے گا وہ اس کائنات کے اسباب کے راستے سے ہی آئے گا۔ 
    اللہ تعالیٰ بے شمار برکتیں نازل فرمائیں حضرت محمد مصطفی ﷺ پر اور اپنے ان تمام بندوں پر جن کے سلسلے سے یہ دینِ حق کا کامل شعور ہم تک پہنچا اور ہمیں ہدایت نصیب فرمائی اور ان کی نسبت اور اتباع سے ہماری بھی مغفرت فرمائیں۔ 
    آمین یا رب العالمین!
    Share via Whatsapp