ارطغرل غازی اور پاکستان - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ارطغرل غازی اور پاکستان

    آج ہم جس فخر سے خود کو مسلمان اور اُس سے بڑھ کر اللہ کا خلیفہ کہتے ہیں تو ہمیں اپنی اولین ذمہ داری کی طرف توجہ ہونا ضروری ہے

    By محمد اسماعیل Published on Mar 04, 2023 Views 515
    ارطغرل غازی اور پاکستان
    تحریر؛ محمد اسماعیل۔ راولپنڈی 

    600  برس تک عثمان غازی کی سربراہی میں بننے والی سلطنت عثمانیہ جنوب مشرقی یورپ سے لےکر موجودہ آسٹریا، ہنگری،بلقان،یونان،یوکرین،عراق،شام،اسرائیل ،فلسطین اور مصر سمیت دیگر علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ تاریخ اور فلسفہ تاریخ کو سمجھنے والا ایک عام فرد بھی اس تاریخی اصول کو سمجھتا ہے کہ کم و بیش چھ صدیوں تک حکمرانی کرنے والی سلطنتِ عثمانیہ صرف عثمان غازی اور اس کے والد ارطغرل غازی کا محض شخصی کارنامہ نہیں تھا ۔درحقیقت ارطغرل غازی اور عثمان غازی صرف اِنفرادی کردار نہیں تھے، بلکہ یہ دونوں اپنے عہد کی اجتماعی قوت کے نمائندہ تھے جو کسی بھی سماج کی بقا و ارتقا کی ضامن ہوتی ہے، یہ اپنا ایک تاریخی تسلسل رکھتے تھے۔آج ایسی شخصیات کو اُبھارنے والوں کے پیش نظر کچھ مخصوص اہداف و مقاصد ہوتے ہیں۔اور موجودہ حالات میں اس طرح کے ڈرامے یہ اَثر مرتب کرتے ہیں کہ شخصیات ہی دین اسلام کی بقا و ارتقا کی ضمانت ہوتی ہیں۔ یوں انسانی معاشرے کسی معجزے کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر ایسی شخصیت کا دل جمعی سے انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اپنے اوپر اتنا بھروسہ بھی نہیں کرتے، جتنا ان مزعومہ ہیرو میں نظر آتا ہے ۔وہ ان افراد کے عمل اور کردار میں کسی بڑے اور بنیادی عنصر یعنی فکرو فلسفہ کی اہمیت سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ یہ کبھی نہیں جان پاتے کہ آخر وہ کیا چیز تھی، کیا قوت تھی جو ایک جنگجو قبیلے کو ایک عالمی سیاست اور ریاست کا حق دار بنا دیتی ہے۔ 
    نوجوان ایسے ڈرامے دیکھتے ہیں، لیکن یہ بات نہیں سمجھتے کہ ان اجتماعیتوں کے سرکردہ رہنماؤں کےپیش نظر اعلیٰ نظریات پرمبنی سوسائٹی کی تشکیل ہوتی ہے-اسی ھدف کےتحت  تین سو سال کی مسلسل جدو جہد اور لازوال قربانیوں کے بعد بنو عثمان نےخلافت عثمانیہ قائم کی تھی-
     آج شخصیت پرستی کے مرض میں مبتلا پاکستانی عوام اِس حد تک مرعوب (Fan) ہوچکی ہے کہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 2023ء کے ممکنہ عام انتخابات میں ارطغرل غازی کاکردار ادا کرنے والا اداکار اینجن التان کو پاکستان میں سیاسی میدان میں اُترنے کا موقع دیا جائے تو وہ بلامبالغہ،ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں سے زیادہ ووٹ لے سکتا ہے۔ 
     دین اسلام کو سطحی اپروچ کےساتھ دیکھنے والوں کو اس بات کا بغور جائزہ لینا چاہیے کہ سات میں سے تین براعظموں تک عظیم سلطنتِ عثمانیہ کاپھیلاؤ کسی بلند فکری کے بغیر ممکن نہ تھا  اور یہ قرآنِ مجید کے انسانیت دوست سیاسی و اقتصادی، معاشرتی نظامِ زندگی کے عادلانہ اصولوں کی بدولت ہی تھا ۔ نبی پاکﷺ اور جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے قائم کردہ نظام نے  ثابت کیا کہ دریائے فرات کے کنارے اگر بھوک و پیاس سے ایک جانور(کُتا) بھی مر جاتا ہے تو سوال اُس نظام کے ذمہ داروں سے ہوگا۔ بلاشبہ قرآنِ مجید ایسا معجزہ ہے، جسے نبی کریمﷺ کی زندگی کے ساتھ منسوب کر کے حال اور مستقبل کے حوالے سےاِنسانیت کے لیے کامیابی و کامرانی کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
    سنجیدہ ذہنوں میں یہ سوال لازمی طور پر زیرغور رہنا چاہیے کہ سلطنتِ عثمانیہ جو نصف سے زائد خطہ ارضی پر بلا شرکت غیرے حکمران رہی، کیا وہ صرف ایک باپ بیٹے کی مرہونِ منت تھی؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں ہے تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے ۔ آج کے باخبر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دین اسلام کی جامعیت کوسمجھے،سیرت النبی ﷺ اور کلام اللہ کی روشنی میں ایسا کون سا سیاسی،معاشی،معاشرتی نظام تھاجو سلطنتِ عثمانیہ کے لیے مشعل راہ بنا۔ سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کا منصفانہ انداز میں تجزیہ کریں تو حقیقت یوں عیاں ہوتی ہے کہ ایک طرف ارطغرل غازی اپنے فرزند کو اپنے وسیع تجربات کی روشنی میں انتظامی لیڈرشپ سکھا رہا ہے تودوسری جانب اُس عہد کے تقاضوں کے مطابق عثمان غازی اور اُس کے ساتھی موجود امکانات اور معاشرتی توانائیوں کو ایک منظم قوت میں تبدیل کررہے تھے ۔یوں ایک نئی عالمی قوت وجود میں آرہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ ایک اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد قرآنِ مجید کے مسلمہ اصولوں پر رکھنے کے لیے عثمان غازی اور اس کی ساتھیوں اور دیگر معاشرتی اکائیوں کی تربیت شیخ ادیبالی جیسے جید اہلِ علم کی باشعور جماعت کررہی ہے۔اِس کی قابل توجہ مثال ارطغرل غازی کی وہ وصیت ہے، جس میں عثمان غازی کو عادلانہ نظام (System) کے قیام کے لیے اس نےکی! 
    ”بیٹا عثمان! جو اپنے ماضی سے ناواقف ہو، وہ اپنے مستقبل سے بھی بے خبر رہتا ہے۔ عثمان اپنی تاریخ سے آگہی حاصل کرو، تاکہ تم مطمئن ہو کر آگے کی طرف قدم رکھ سکو۔"
    کتنی حیرت انگیز اور غور طلب بات ہے کہ ایک جنگجُو (ارطغرل) قبائلی سردار کے پاس جتنا وژن اور جتنی بصیرت موجود تھی، وہ ہمارے موجودہ دور کے سیاسی پنڈتوں کے قریب سے بھی نہیں گزری۔ ارطغرل کی وصیت میں موجود نصیحتیں بہ ظاہر عثمان کو کی جارہی تھیں، لیکن حقیقت میں سلطنتِ عثمانیہ تمام سلاطین کے لیے دستوری دستاویز کی مانند تھی،جسے انھوں نے اپنے پلے سے باندھ کر دنیا کو ورطہ  حیرت میں ڈال دیا۔آج سامراجی طاقتوں کے پوری طرح زیرِ اثر، ہمارا میڈیا اپنے ہی نوجوان کو ارطغرل غازی اور عثمان غازی کی اجتماعی حیثیت کو ایک فلمی و طلسمی کردارمیں سمو کر دینِ اسلام کی پہچان محض ہیرو اِزم کےدل کش و دل فریب بیانیے کے تحت کروا رہا ہے-
          آج  مخلص نوجوان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عہد نبوی ، دور خلافت راشدہ ،خلافتِ عثمانیہ اور برعظیم پاک و ہند میں مسلمان 18 فی صد اقلیتی آبادی ہونے کے باوجود 86 فی صد کثیرالمذہبی، کثیراللسانی اور کثیرالقومی خطوں میں عادلانہ نظام قائم کرنے میں کیوں کر کامیاب ہوئے؟ آخر وہ کون سے زریں اصول تھے جو اس قدر تابناک اور دور رس تھے کہ اس سما ج کی بنیاد رکھی کہ معلوم انسانی تاریخ اس جیسی دوسری مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آج ہماری نوجوان نسل کو سوچنا ہوگا ہم نے پاکستان کو اِسلام کے نام پر حاصل تو کرلیا اور اس میں موجود مسلمانوں کی تعداد 96 فی صد سے بھی زائد ہے،مگر نظامِ مملکت یعنی سیاسی،معاشی ، معاشرتی شیرازہ بندی کس سیرت اور کون سی کتاب کی روشنی میں کی گئی ہے؟
    آج ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ اپنی سوچ و فکر کو دھندلی عینک لگا کر گمراہ ہونے سے بچائیں۔قرآن مجید کا مطالعہ بہ طور معاشرتی تشکیل نو کی کتاب کے کریں-  خدا تعالیٰ کی صِفات "عادل، رازق، الرحمٰن، الرحیم" کا فہم حاصل کرکے اِس پر مبنی جامع نظام (System) قائم کریں ،تاکہ یہ دُنیا جنت نظیر وادی بن سکے۔
    Share via Whatsapp