امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے پاکستان کے بارے میں خدشات اور موجودہ حقائق
برٹش انڈیا ایکٹ 1935 کے مطابق پاکستان سامراجی مقاصد کو پورا کرنے پر مجبور ہے جہاں سامراج طبقا تی تقسیم وانتشار پیدا کرکے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے پاکستان کے بارے میں خدشات اور موجودہ حقائق
محمد شفیق تنولی۔ کراچی
وطنِ عزیز کی موجودہ صورتِ حال ہر ذی شعور پاکستانی کے لیے باعثِ رنج و تکلیف ہے، جی میں آتا ہے کہ ان حالات کو نوشتہ تقدیر سمجھ کر قبول کر لیا جائے، مگر یہ کم بخت عقل آئینہ تاریخ کے روبرو کر دیتی ہے، جہاں مستقبل کا عکس واضح دکھائی دیتا ہے۔
اہل عقل و دانش تو روزِ اوّل سے ہی تاریخی حقائق سے بہ خوبی آگاہ ہیں، مگر آج تعلیمی بدحالی، معاشی ناہمواری،سیاسی عدمِ استحکام،عدالتی عدمِ مساوات اور سماجی ناانصافی کی بنیاد پر قائم ظالمانہ سامراجی، دَجالی نظام پر پڑے تقدیس کے پردے آہستہ آہستہ چاک ہو رہے ہیں۔ اس کے تمام ادارے سرِ بازار بے لباس ہورہے ہیں اور اپنے طفیلی کردار کی وَجہ سے وطنِ عزیز کی بدنامی میں مزید اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
سیاسی عدمِ استحکام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے سب سے طاقت ور و منظم ادارے نے 75 سال 2 ماہ اور 12 دن بعد آپس میں مشورہ کر کے متفقہ طور پر خود کو آئینی اور غیرسیاسی کردار تک محدود رکھنے کا اعلان ایک غیرمعمولی پریس کانفرنس میں کیا ہے۔
دراصل 75 سالوں سے جو ریت قائم ہے وہ برطانوی پارلیمنٹ کے وضع کردہ برٹش انڈیا ایکٹ 1935ء کے عین مطابق ہے۔ اسلامی جمہوریہ بتدریج سامراجی اہداف و مقاصد کو پورا کرنے کے سفر پر گامزن ہے۔
پاکستان کو کنٹرول کرنے والی بین الاقوامی مافیا کے ادارے (سی آئی اے، ورلڈبینک، آئی ایم ایف) اپنے ایجنٹوں (سرمایہ پرست سرمایہ دار،جاگیردار،بیوروکریسی، سیاست دان) کے ذریعے سیاسی، مذہبی جماعتیں بنانے، بگاڑنے، حکومتیں بنانے، گرانے، مختلف جماعتوں کے اتحاد قائم کرنے اور خوش نما عنوانات سے تحریکات چلانے کا گھناؤنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سیاستِ عالم کے ایک ماہر نکتہ داں، انسانی معاشروں کے نبض شناس،مفسر قرآن،مولانا ابوالکلام آزاد نے تقسیمِ ہند کے وقت جن شکوک وشبہات کا اِظہار کیا تھا وہ صد فی صد درست ثابت ہوئے ہیں۔ گویا تاریخ نے آپ کی بیان کردہ پیشین گوئیوں پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
آپ کی پیشین گوئیاں محض تصوراتی بنیاد پر نہ تھیں، بلکہ آپ نے درست معلومات کی روشنی میں حقائق کا متوازن تجزیہ کر کے اپنے خدشات کا اِظہار فرمایا تھا۔ آپ کے سامنے فراعنہ مصر کی نسل پرستی کی بنیاد پر تقسیم کے منصوبوں کی ایک تاریخ موجود تھی۔ آپ فرعونی نظام کی نفسیات سے خوب آگاہ تھے کہ وہ کس طرح ایک قوم کو دوسری قوم سے، ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے لڑا کر کمزور بناتا تھا۔ اور طاقت ور گروہ اور سیاسی و مذہبی مشیروں کو اپنے اقتدار اور وسائل پر قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
برطانوی سامراج کے ظالمانہ کردار کی تاریخ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندوستان کے وسائل کو لوٹنے کی تاریخ بھی آپ کے پیشِ نظر تھی ۔سلطنت عثمانیہ کو دو قومی نظریہ (عرب، عجم) کی بنیاد پر کئی ٹکڑوں میں تقسیم کیا، جب کہ ان کا دین، مذہب اور نظریہ ایک تھا۔ اور ہندوستان کی تقسیم کے لیے دوقومی نظریے کی بالکل مختلف تاویل کر کے خطے کو تقسیم در تقسیم کا شکار کر کے وسائل پر قبضے کی منصوبہ بندی کی گئی۔
مولانا موصوف انسان نما بھیڑیوں کے کردار پر شاہد بھی تھے کہ کس طرح دَجالی سسٹم کے ذریعے مذہب، رنگ، نسل کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان تقسیم پیدا کی گئی۔ نفرت، شرانگیزی اور شدت پسندی کو ہَوا دے کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا اور پھر تمام مسائل کا حل بھی "تقسیم" تجویز کیا۔
اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
برطانیہ کے تقسیمِ ہند کے اعلان سے تقریباً تین ماہ قبل ہی نئے اُبھرتے سامراج امریکا بہادر نے یہ عندیہ دے دیا تھا کہ تقسیمِ ہند کے ذریعے دنیا میں ایک نئی قوم اُبھر رہی ہے جو دنیا (امریکی مفادات) کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ڈھال کا کردار ادا کرے گی۔
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے تقسیمِ ہند سے تقریبا ڈیڑھ سال قبل اپریل 1946ء میں شورش کاشمیری کو رسالہ "چٹان" کے لیے انٹرویو دے کر برٹش ایکٹ کے تحت معرض وجود میں آنے والی ریاست کے مستقبل کو طشت از بام کر دیا تھا۔
آپ نے فرمایا:
"میں سمجھتا ہوں کہ اپنے قیام سے ہی پاکستان کو بہت سنگین مسائل کا سامنا رہے گا۔
1۔ کئی مسلم ممالک کی طرح پاکستان کی نااہل سیاسی قیادت فوجی آمروں کی راہ ہموار کرے گی۔
2۔ بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ ہوگا۔
3۔ پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات کا فقدان اور جنگ کے امکانات ہو ں گے۔
4۔ داخلی شورش اور علاقائی تنازعات ہوں گے۔
5۔ پاکستان کے صنعت کاروں اور نو دولتیوں کے ہاتھوں قومی دولت کی لوٹ مار ہوگی۔
6۔ نو دولتیوں کے استحصال کے نتیجے میں طبقاتی جنگ کا تصور ہوگا۔
7۔ نوجوانوں کی مذہب سے دوری،عدم اطمینان اور نظریہ پاکستان کا خاتمہ ہوجائے گا۔
8۔ مشرقی پاکستان کے لیے بہت طویل مدت تک مغربی پاکستان کے ساتھ رہنا ممکن نہ ہو گا۔ دونوں خطوں میں کوئی بھی قدرِ مشترک نہیں ہے، سوائے اس کے دونوں اطراف کے رہنے والے خود کو مسلمان کہتے ہیں۔
9۔ مغربی پاکستان خطے میں موجود تضادات اور اختلافات کا میدانِ جنگ بن جائے گا ۔ پنجاب،سندھ،سرحد اور بلوچستان کا قومیائی تشخص بیرونی مداخلت کے دروازے کھول دے گا۔ ممکن ہے عالمی قوتیں پاکستان کی سیاسی قیادت میں موجود مختلف عناصر کو استعمال کر کے اس کے حصے بخرے کر دیں گی، جیسا کہ بلقان اور عرب ریاستوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔
ان تمام مسائل کی موجودگی میں آج ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہم سیاسی اجتماعی شعور کو بڑھائیں اور ایک منظم اجتماعیت کے ذریعے اس زوال سے نکلنے کی حکمتِ عملی اختیار کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آزادی ہند کے عظیم رہنما کی قبر پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے اور عالمی سامراجی قوتوں کی تقسیمِ مغربی پاکستان کی سازشوں کا شعوری جدوجہد کے ذریعے مقابلہ کر کے آزادی و حریت، معاشی خوش حالی، سیاسی امن، سماجی انصاف اور اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مبنی حقیقی فلاح کا نظام قائم کرنے کی صلاحیت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین!