حقیقی آزادی اور مروجہ سیاسی جدوجہد - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • حقیقی آزادی اور مروجہ سیاسی جدوجہد

    آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ آزاد قومیں خود مختار ، باوقار ہوتی ہیں اور اپنی آزاد سیاسی اور معاشی پالیسی رکھتی ہے۔

    By فرخ تنویر مغل Published on Nov 18, 2022 Views 618
    حقیقی آزادی اور مروجہ سیاسی جدوجہد 
    تحریر؛ فرخ تنویر مغل۔ فیصل آباد 

    آزادی ایک ایسی نعمت ہے،جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔آزاد قومیں خودمختار اور باوقار ہوتی ہیں۔ یہ اپنی آزاد سیاسی اور معاشی پالیسیاں رکھتی ہیں۔ان کے ریاستی عہدے دار خود کو عوام کا خادم سمجھتے ہوئے سوسائٹی کے جملہ مسائل ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کے لیے ہر وقت مصروفِ عمل رہتے ہیں۔
    پاکستان جس خطے میں واقع ہے۔اس خطے پر ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانیہ نے تین سو سالہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی غلامی کے نقوش چھوڑے ہیں۔اور اسی کالونیل دور کا استعماری نظام بدستور جاری و ساری ہے۔ نتیجتًا وطن عزیز کی 60 فی صد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔جنگِ عظیم دوم کے خاتمے پر برطانوی اور امریکی سامراج نے نیو ورلڈ آرڈر تشکیل دیا،جس میں تیسری دنیا کے ممالک پر براہِ راست حکمرانی کے بجائے اپنے ذہنی غلام اور وفادار طبقے کو مسلط کیا گیا۔جو بہ ظاہر تو عوام کے منتخب کردہ لوگ ہیں۔لیکن درپردہ انھی سامراجی قوتوں کے آلہ کار ہیں۔ 
    75سالوں سے قوم کو مختلف عنوانات سے بےوقوف بنایا جا رہا ہے۔کیوں کہ استعماری نظام کو اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے ہر وقت تروتازہ ایندھن نوجوان نسل کی صورت میں چاہیے ہوتا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو نچوڑ کر اپنے سامراجی مقاصد پورے کیے جاتے ہیں۔پاکستان کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں اس کھیل کا حصہ ہیں۔جو اسی سامراجی نظام کی محافظ اشرافیہ سے گٹھ جوڑ کر کے سیاست کرتی ہیں۔ان کے نعرے دلوں کو لبھانے والے تو ہو سکتے ہیں، لیکن عملاً اسی نظام کو تقویت دیتے ہیں۔ 
    سماجی مسائل کے پائیدار حل کے لیے ایک منظم جماعت ضروری ہے۔ایسی جماعت جو سماجی تبدیلی کے نظریہ پر قائم کی گئی ہو۔اور اس کے ہاں اس نظریہ پر تربیت کا فکری نظام موجود ہو۔اور وہ جماعت فکری و عملی حوالے سے تاریخی تسلسل کی حامل ہو۔جب کہ آج ہمارے ملک میں مروجہ سیاسی عمل میں موجود جماعتیں ان خصوصیات سے عاری نظر آتی ہیں۔سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے تعاون اور الیکٹیبلز کے سہارے حکومت بنا تی ہیں اور پھر عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کے بجائے ان قوتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہیں۔نیز ان جماعتوں کی ساری کی ساری سیاست ایک فردِ واحد کے گرد گومتی ہے۔ 
    ان سیاسی پارٹیوں کے نزدیک تبدیلی اور انقلاب کے نعرے اقتدار کی تبدیلی اور حکومت کے حصول کا دوسرا نام ہے۔اگر تبدیلی اور انقلاب کا یہی معیار ہے تو پچھلے 75سالوں میں بیسیوں بار تبدیلی آچکی ہے اور ہر نئی تبدیلی پہلے والی سے زیادہ بھیانک نتائج لا تی ہے۔
    آج کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کرپٹ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اور دیگرسیاسی پارٹیوں کے منحرف اور کرپٹ ارکان کو ملاکر کی جارہی ہے۔اس جدوجہد کا انجام عدالتی فیصلوں اور اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات سے واضح نظر آرہا ہے۔حصول اقتدار کے لیے دلآویز نعرے لگائے جاتے ہیں۔عادلانہ ریاست محض نعروں اور بلند و بانگ دعوؤں سے تشکیل نہیں دی جاسکتی، بلکہ اس کے لیے سیرت نبویﷺ کے مطالعہ اور اس کی روشنی میں جدوجہد کی ضرورت ہے۔آپ ﷺ نے سماجی تبدیلی کے لیے اعلیٰ نصب العین پر ایک منظم اور تربیت یافتہ جماعت پیدا کی اور اس جماعتی قوت سے غالب نظام کو چیلنج کیا۔اور استحصالی نظام کا خاتمہ کر کے عدل و انصاف پر مبنی ریاست مدینہ قائم کی۔آج ہمیں ان سیاسی جماعتوں کے آلہ کا ر بننے اور اس فرسودہ نظام کے تحفظ کی تحریکات کا ایندھن بننے سے اجتناب کرنا چاہیے۔کیوں کہ یہ استحصالی نظام کبھی بھی انسانیت کی فلاح کا ضامن اور ترجمان نہیں ہوسکتا۔
    Share via Whatsapp