سوشل ڈارونزم اور اسلام ۔۔۔ ایک تقابلی جائزہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سوشل ڈارونزم اور اسلام ۔۔۔ ایک تقابلی جائزہ

    جب سوشل ڈارونزم انسانی اجتماع پر لاگو ہوتا ہے تو بے مہار اور لا محدود معاشی آزادی انسانی سوسائٹی کی جڑیں کھوکھلی کرتی ہے۔

    By خبیب حمید Published on Nov 18, 2022 Views 937

    سوشل ڈارون اِزم اور اسلام؛ ایک تقابلی جائزہ

    تحریر؛ خبیب حمید ۔ گوجرانوالہ


    عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سانپ کے پاؤں ہوتے تھے اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئے، کیوں کہ سانپ نے اپنے پاؤں کا زیادہ استعمال نہیں کیا اور پیٹ کے بل رینگنے کو فوقیت دی۔رفتہ رفتہ اس کے اس عمل سے اگلی نسلوں کے درمیان جینو ٹائپ میں تبدیلی واقع ہونا شروع ہوئی۔یہ تبدیلی جیسے جیسے اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی گئی،ان کے پاؤں ختم ہونا شروع ہوئے اور آج جو سانپ کی ارتقائی شکل ہمارے سامنے ہے، اس میں ہمیں پاؤں دیکھنے کو نہیں ملتے۔یہی حال دیگر بہت سارے حیوانات کی ابتدائی و ارتقائی شکلوں کا ہے۔

    یہ تھیوری ایک برطانوی سائنس دان بیالوجسٹ چارلس ڈارون (Charles Darwin) نے 1859ء میں اپنی کتاب Origin of Species میں پیش کی۔ اس نے اسے خصوصیات کے قدرتی چناؤ (Natural Selection) کا نام دیا۔اور اپنے مشاہدات اور تجربات کو کچھ یوں ترتیب دیا کہ جو خصوصیات جینز میں اپنے آپ کو مکمل طور پر ظاہر کر لیتی ہیں اور ماحول سے مطابقت اختیار کرتی ہیں، وہ اگلی نسل میں منتقل ہوجاتی ہیں اور جو نہیں کرپاتیں، ان کا وجود رفتہ رفتہ اپنا وجود صفحہءِ ہستی سے رفتہ رفتہ مٹ جاتا ہے۔ ڈارون نے یہ تصورات و مشاہدات محض پودوں اور جانوروں میں جینز کی منتقلی کے طور پر پیش کیے تھے، جسے ڈارون کے نظریہ ارتقا (Evolution Theory) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب اس نظریہ ارتقا نے Survival of the fittest کا روپ دھارا،اور اس کے نیچرل سلیکشن کو انسانی معاشرے پر اپلائی کیا تو یہ نظریہ انسانی اجتماع کے لیے زہرِہلاہل ثابت ہوا۔ 

    ڈارون کے نظریہ ارتقا کو Survival of the fittest کے روپ میں میں لانے کا سہرا ہربرٹ سپنسر (Herbert Spencer) کے سر ہے۔ ہربرٹ سپنسر ایک بیالوجسٹ اور سوشیالوجسٹ تھا اور اس کےساتھ ساتھ پروفیسر اور لیکچرار بھی۔اس نے 1881-1883ء میں اپنے مضامین سے ڈارون کے کام کو انسانی اجتماع پر منطبق کرکے اسے سوشل ڈارونزم (Social Darwinism) کا نام دیا۔

    اس نظریے کے مطابق جس طرح کی خصوصیات کا ماحول سے مطابقت نہ رکھنے پر معدوم ہو جانا طےہے، بعینہٖ جو انسان اپنی بقا کی جنگ نہیں لڑ سکتا، اسے جینے کا کوئی حق نہیں۔ 

    سوشل ڈارون اِزم کی ذیل میں اس نے یہ بات ثابت کی کہ انسانی سوسائٹی میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے بقا کی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔اس جنگ میں انسان اپنی استعداد،قابلیت،چاپلوسی ،ڈاکا زنی، الغرض کسی بھی طریقہ کار کو اختیار کر کے جتنا بھی دھن دولت اکٹھا کرے، وہ اس کے لیے جائز ہےاور اس کی بقا کی ضرورت بھی! اور جو ایسا کرنے سے قاصر رہتا ہے، اس کے لیے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔ اس لیے وہ رفتہ رفتہ اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے۔

     سوشل ڈارون اِزم کے حق میں آواز اٹھانے میں ولیم گراہم سمنر (William Graham Sumner) کا بہت بڑا کردار دیکھنے کو ملتا ہے ۔وہ بقا کی جنگ کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔

    1۔آدمی اور ماحول (Man vs Environment)

    2۔آدمی اور آدمی (Man vs Man) 

    جو آدمی ماحول سے جنگ جیت جاتا ہے اور اپنی زندگی کوآگے بڑھاتا ہے،وہ معاشرے میں اپنے ہی جیسے دوسرے آدمیوں سے مقابلے میں آجاتا ہےاور اگر یہاں وہ مال و دولت کے حصول وغیرہ کی دوڑ میں آگے نکلے تو ٹھیک، وگرنہ اسے معاشرے میں زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا۔

    ان افکار کی اَثرپذیری بڑھانے میں رہی سہی کسر یوجینکس (Eugenics) کی سائنس نے پوری کر دی، جس کے مطابق:"معاشرے کو اس کی (ناپسندیدہ) چیزوں سے چھٹکارا دے کر نسلِ انسانی کو بہتر بنایا جائے"۔ 

    یعنی اس نے معاشرے کے غریب طبقے کو undesirables کے نام سے موسوم کیا ہے۔

    یوجینکس کی تحریک 1920-1930ء میں امریکا میں بھی زور پکڑ چکی تھی، اس پر کتابیں لکھی گئیں اور فلمیں بھی بنائی گئیں۔ اس نظریے نے شہنشاہیت کو شہ دی، Racism کی بنیادیں کھڑی کیں اور ایڈولف ہٹلر جیسے سفاک لوگوں کو جنم دیا۔

    آج سرمایہ پرست معاشروں " یورپ وامریکا" میں موجود نظاموں کی عمارت بھی انھی مکروہ افکار پر کھڑی ہے۔ سرمایہ داری نظام کا کہنا ہے کہ یہ سوشل ڈارون اِزم اور اس سے جڑے افکار دراصل ایک فطرتی عمل کےترجمان ہیں اور نیچربھی اسی اصول پر کام کر رہی ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ یورپ کا باشندہ اسی ارتقائی عمل سے گزرکر ترقی کرتا ہے۔ اسی لیے اس کی ذہنی ،معاشی اور تعلیمی حالت اور تمام معاملات زندگی غیر یورپین لوگوں سے اچھے ہیں۔ لہٰذا یہ اس کا فطری اور قدرتی حق ہے کہ وہ ترقی کرے اور اس کی عزت کی جائے۔ جب کہ ایشیا اور افریقا کے ممالک جو ترقی نہیں کر سکتے وہ اسی اصول کی زد میں آتے ہیں اور وہ ترقی کی دوڑ میں یورپین اقوام سے پیچھے ہیں۔

    اسی نظریے کی بنیاد پر آج امریکا سپر پاور کہلاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ چوں کہ ہم نے ترقی کی ہے، لہٰذا lead کرنا ہمارا حق ہے۔ پوری دنیا کی لیڈنگ پاور ہمارے پاس ہونا ایک فطرتی اور قدرتی تقاضا ہے۔ غیرامریکا ملک تبھی lead کرے گا، جب وہ ہم سے زیادہ زور آور اور ترقی یافتہ ہوگا۔

    حقیقت یہ ہے کہ جب سوشل ڈارون اِزم انسانی اجتماع پر لاگو ہوتا ہے تو بے مہار اور لامحدود معاشی جبرواستبداد انسانی سوسائٹی کی جڑیں کھوکھلی کرتا ہے، پھر امیر، امیر سے امیرتر ہوتا ہے اور غریب نانِ جویں کو بھی ترستا ہےاور رفتہ رفتہ اس نام نہاد ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے اور ماحول سے مطابقت نہ ہونے کے باعث معدوم ہوجاتا ہے۔ یہ Survival of the fittest کا دور ہے۔ اور جیے گا وہی جو Man vs Man جنگ میں انسانی وسائل کو ہڑپ کرنا بہتر طریقے سے جانتا ہے، جسے ظلم و جور کی چکی اچھے سے چلانی آتی ہے،جو دوسروں کے حقوق پر غاصبانہ حملہ زیادہ بہتر طریقے سے کرتا ہے اور یہی اپنی اجارہ داری اور سرمایہ پرستی سے دولت کے انبار لگائے گا۔ چاہے وہ سارا کالادھن ہی کیوں نہ ہو، جس کے پاس معاشی وسائل کم ہیں وہ مرتا ہے تو مر جائے۔

    سوشل ڈارون اِزم کے حامیوں سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ کیا غریب انسان نہیں ہے؟ اس کو جینے کا حق کیوں نہیں ہے؟ ذہنی استعداد یا تعلیمی قابلیت کی فراوانی نہ ہونا، کیا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا وجود تک صفحہ ءِزیست سے ناپید کر دیا جائے؟ اس نام نہاد ارتقائی عمل کے دوران انسانی وسائل پر اپنی لامحدود اجارہ داری کی اجازت کیوں کر دی جائے؟

    یورپ کے اس غیرانسانی سوشل ڈارون اِزم اور اس سے ماخوذ نظریات کے برعکس اسلام انسانیت کو اصل قرار دیتا ہے۔اسلام نے سوسائٹی کی تشکیل اور ارتقا میں عدل و انصاف کوبنیادی اصول قرار دیا ہے۔

    اسلام انسانی وحدت کی بنیاد پر سماج قائم کرنا چاہتا ہےاور انسانیت میں کسی طرح کی تقسیم اور انتشار کا روادار نہیں۔ اسلام بلاتفریق رنگ ،نسل ومذہب،و سائلِ معیشت کی عادلانہ فراہمی کوانسانی معاشرے کا ایک لازمی جزو قرار دیتا ہے۔اسلام نے جہاں درجاتِ معیشت میں توازن کی بات کی، وہیں حقِ معیشت میں مساوات کو بھی لازمی قرار دیا ہے۔بلاشبہ سوسائٹی میں افراد کے مابین ذہنی استعداد اور قابلیت کا فرق ہوتا ہےاور یہ فرق متقاضی ہے کہ معیشت میں درجات رکھے جائیں، تاکہ بہتر سے بہتر کی طرف گامزن ہونے کی سوچ ترقی پائے اور سوسائٹی بہ طور اجتماع ترقی کرے۔ لیکن وسائل رزق تک سب کی رسائی کو یکساں بنا کر تمام افرادِ معاشرہ کی کفالت بہرطور ضروری ہے۔رہا درجات معیشت کا فرق تو اسی سے خوب سے خوب تر کی جستجو پیدا ہوتی ہے، جس سے معاشرے میں تعلیم، صحت،سیاست، معیشت اورتمام تر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی اور جدت کی نئی راہیں تلاش اور جہتیں وضع کی جاتی ہیں۔ہاں! جن کے پاس زیادہ مال ودولت ہے۔ ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔ اور ان پر مالی فرائض بھی! اور اس کے ساتھ معاشرے میں کسی بھی فرد کو تعیش کی اجازت نہیں ہے۔ اس حوالے سے اسلام ایک متوسط رفاہیت کا قائل ہے۔

    مزید یہ کہ درجات کا فرق بھی واجبی نوعیت کا ہوگا، نہ یہ کہ ایک طرف تو دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائےاور دولت و ثروت کے پہاڑ کھڑے کیے جائیں اور باقی معاشرہ غربت کی ڈیڈ لائن سے بھی نیچے زندگی گزارے اور غریب کے چولہے کی آگ بھی ٹھنڈی پڑ جائے۔

    بدقسمتی سے ہمارا پاکستانی سماج اس طبقاتیت کابدترین نمونہ ہے کہ جس میں ایک طرف تو تعیشات کی انتہائیں ہیں، ایک مخصوص سرمایہ پرست کلاس مال وثروت کی بہتات میں مبتلا ہے اور عوام کی اکثریت غربت و افلاس کی چکی میں پس رہی ہے اور حالیہ دنوں میں سرمایہ داری کے شکنجے کی بڑھتی ہوئی چیرہ دستیوں نے تو مڈل اور اپر مڈل کلاس کی بھی چیخیں نکال دی ہیں۔

     یہی وہ سرمایہ دارانہ تسلط ہے کہ جس میں ایک طرف محض سر میں ہلکا سا درد ہونے پر ہماری اشرافیہ انٹرنیشنل ہاسپٹلز میں علاج کرواتی ہے تو دوسری طرف غریب سول ہسپتالوں کی دہلیزوں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتا ہے۔ 

    اسلام ایسے تمام طبقاتی اور غیرانسانی تصورات اور اس پر قائم فاسد معاشرت کا نہ صرف ناقد ہے، بلکہ وہ ایسے نظامِ زرپرستی کے خلاف دعوتِ انقلاب دیتا ہے اور ایسے عادلانہ سسٹم کے قیام کی بات کرتا ہے کہ جس میں تمام انسانوں کو یکساں بنیاد پر حقوق اور ترقی کے مواقع مہیا ہوں اور دنیائے انسانیت اس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کرسکے۔

    اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا نوجوان یورپ وامریکا کےان سرمایہ پرستانہ تصورات اور اس پر استوار عالمی نظامِ جبر سے متاثر ہونے کے بجائے دینِ اسلام کی انسانیت دوست تعلیمات سے آگاہ ہواور اس پر ایک سماجی تشکیل کے لیے مربوط اور منظم شعوری جدوجہد کا راستہ اختیار کرے۔

    Share via Whatsapp