برصغیر اور انگریز
برصغیر کے ممالک کے مسائل ایک جیسے ہیں اور ان مسائل کا زمہ دار بھی متعین ہے جو برصغیر کو ان حالات تک لے آیا لیکن آج ہم نے اس دشمن کو سامنے نہ رکھا.
برصغیر اور انگریز
وجاہت عباسی۔ اسلام آباد
آج اگر برصغیر کے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو ان ممالک کو آج (بہ ظاہر) آزادی حاصل کیے ہوئے پون صدی گزر گئی ہے ، لیکن ان ممالک (پاکستان، انڈیا، بنگلادیش اور دیگر) میں آج بھی عوام کی حالت نہیں بدلی، بلکہ ہر آنے والا دن پہلے دن سے بدترین ہوتا جا رہا ہے۔ ان تمام ممالک کے مسائل کم و بیش ایک ہی طرح کے ہیں، جیسے غربت،ناانصافی،لاشعوری،بھاری ٹیکسز،ظلم،طبقاتی تقسیم،دہشت گردی اور قرضوں کے انبار، جن کا عوام سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں جو سرمایہ داری نظام نے اس خطے میں مسلط کر رکھے ہیں اور یہی اس خطے کی عوام کا بنیادی مسئلہ ہے۔
اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں حالات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ برصغیر کے حالات ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے، بلکہ یہ خطہ تمام دنیا میں سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔ جس کی بنیاد ( اس وقت ) یہاں پہ نظامِ عدل کا غلبہ اور اس کے نتیجے میں معاشی ترقی اور خوش حالی تھی، لیکن یہاں انگریز کی آمد کے بعد اس نے ظلم کی بنیاد پر یہاں کا نظام تشکیل دیا، جس نے اس خطے کے عوام پر ظلم کی انتہا کی اور اس علاقے کے وسائل کو لوٹ کر اپنے ملک منتقل کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق انگریز نے ہندوستان سے پینتالیس ٹریلین ڈالر سے زائد کا سرمایہ لوٹا، جو آج کے سب سے بڑی معیشت رکھنے والے ممالک ( امریکا اور چین وغيرہ ) کی مجموعی معیشت سے بھی زائد بنتا ہے ۔
انگریز کی آمد سے قبل ہندوستان دنیا کی تقریباً 25 فی صد سے زائد کی معیشت رکھتا تھا اور انگریز کے جانے کے وقت اس کی کل معیشت دنیا کے اعتبار سے صرف 2 فی صد رہ گئی۔ اور بات یہاں تک نہ رکی، بلکہ یہاں معاشی صورتِ حال مسلسل بد سے بدتر ہوتی چلی گئی، جس کی بنیادی وَجہ یہ ہے کہ 1947 ء میں انگریز نے برصغیر کے ممالک کو برائے نام آزادی تو دی ، لیکن جاتے ہوئے اپنی "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی پالیسی کے تحت اس خطے کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف ملکوں میں بدل دیا اور اپنا فرسودہ سرمایہ داری نظام ان ملکوں میں نافذ رکھا ، اس کے ساتھ ہی اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں تھمایا جو بہ ظاہر تو اس خطے کے معلوم ہوتے تھے، لیکن اندر سے وہ انگریزوں کے ایجنٹ تھے، جن لوگوں نے اس خطے کی ترقی میں ہمیشہ رکاوٹ قائم رکھی۔
تقسیم کے بعد 75سال کا عرصہ گزر گیا ہے، اس طویل عرصے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان ممالک کے حکمران اپنے اپنے ملکوں کے عوام کے لیے معاشی خوش حالی اور ترقی پرمبنی پالیسیاں بناتے،پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے اور خوش گوار تعلقات قائم کرتے اور اپنے ممالک کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کرتے ( جیسے ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ملک چین کے حکمرنوں نے کیا) ، لیکن بدقسمتی سے آج بھی ہندوستان کے تقسیم شدہ ممالک ایک دوسرے سے نفرت اور لڑائی کی بنیاد پر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ حال آں کہ آج اس خطے پر جو حالات مسلط ہیں، ان کی اصل ذمہ دارتو وہ سامراجی قوتیں ہیں جوکہ سب کی مشترکہ دشمن ہیں۔ لیکن ہم نے حقیقی دشمن سے تو کوئی اعلانِ جنگ نہ کیا اور نہ ہی باہمی تعاون سے کوئی خاص ترقی کی منزل طے کی، بلکہ خود ایک دوسرے سے لڑتے لڑتے ملکی وسائل اور عوام کو تباہ کیا۔
آج اگر اس خطے کو مسائل سے نکلنا ہے اور سامراجی نظام سے آزادی حاصل کرنی ہے تو شعوری بنیادوں پرایک صالح اجتماعیت پیدا کرکے اس نظامِ ظلم کے خلاف ( عدمِ تشدد کے اصول پر کار بند رہتے ہوے ) مکمل آزادی اور سماجی تبدیلی کی جدوجہد کرنی ہوگی اوراگر آج ہم نے اپنے اوپر عائد ہونے والی اس ( قومی،دینی اور انسانی ) اجتماعی ذمہ داری کو سمجھنے اور اس کا حق ادا کرنے میں غفلت برتی توہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ بدتر ہوکر آئے گا اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اس کے نتائج بھگتیں گی اور(خدانہ خواستہ) ان کی تباہی کے ذمہ دار ہم ہی ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اس ذمہ داری کو پوراکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔