پاکستان میں مسائل کی اصل جڑ
لوگ جب بھی کسی محفل میں یا ہوٹل پر کھانے ،چائے وغیرہ کے لیے بیٹھتے ہیں تو زیادہ تر سیاست اور حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے ہیں۔
پاکستان میں مسائل کی اصل جڑ
تحریر؛ علی محمد بگٹی
لوگ جب بھی کسی محفل میں یا ہوٹل پر کھانے ،چائے وغیرہ کے لیے آج کل بیٹھتے ہیں تو زیادہ تر سیاست اور حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتے ہیں۔ اگر اس میں سب لوگ ایک لیڈر یا پارٹی کو پسند کرتے ہوں تو یہ گفتگو کافی بہتر ماحول میں ہوتی ہے۔ لیکن اگر مخالفت میں کوئی بات کرے تو سارے مخالفین ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ہیں اور ماحول میں گرما گرمی پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اس کے بعد سارے لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔کبھی کبھار ایسی مجلسوں کی بحثیں نفرتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ ان محفلوں میں جو بات چیت ہوتی ہے وہ زیادہ ترسوشل میڈیا پر یا سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے کی جاتی ہے ۔ ان مجلسوں میں چھوٹے اپنی رائے بڑوں کی باتوں کی بنا پر قائم کرتے ہیں اور پھر جب نتیجے کی بات کی جاتی ہے تو نتیجہ اور اصل مسئلہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔ حقیقت میں جب سے وطنِ عزیز پاکستان بنا ہے، مسائل ویسے کے ویسے ہی ہیں، بلکہ مسائل اَور بڑھ رہے ہیں، جیساکہ غربت،بھوک،بے روزگاری ،جہالت، جھوٹ ، دھوکا، منافقت وغیرہ
اس کے علاوہ ریاست پاکستان کا کوئی ایسا شعبہ/ادارہ نہیں جو اپنا کام صحیح کررہا ہو۔ عدالتوں میں انصاف نہیں، پولیس کے محکموں میں رشوت کا بازار گرم ہے، تعلیمی ادارے ذہنی غلام پیدا کررہے ہیں، ہسپتالوں میں مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے آپسی مسائل اور فوائد کی جنگ برپا ہے۔ ان تمام مسائل کو ہم سائنٹفک انداز میں سمجھ کر حل کریں گے تو نتیجہ نکلے گا۔
سائنس کے مطابق کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے اس کی وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر مسئلے کی جڑ تک آپ پہنچ جائیں تو سمجھیں کہ آپ نے %50 مسئلہ حل کرلیا۔ اس کو سمجھنے کے بعد آپ اس کے لیے مناسب پلاننگ کر کے اس کا مستقل حل کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں 96 فی صد لوگ جو کام کرتے ہیں اس کا مقصد پیسے یا دولت کا حصول ہوتا ہے یہ سوچ ماحول نے پیدا کی ہے۔ گھر میں والدین بچپن سے ہی بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دیتے ہیں کہ بیٹا آپ نے بڑا ہوکر اچھی نوکری حاصل کرکے پیسہ کمانا ہے۔ اس ماحول سے نکل کر جب بچہ اسکول ،کالج، یونیورسٹی، میں جاتا ہے تو وہاں استاد، پروفیس18،02سال ہمارے ذہنوں میں یہی کچھ ڈالتے ہیں کہ آپ نے بڑا ہوکر پیسہ کمانا ہے اور یہی سوچ ہمارے دینی مدارس میں بھی دی جاتی ہے ۔جب وہ نوجوان ایک ادارے میں 20سال لگاکر سماج میں آتا ہے تو نتیجہ بھی ویسا ہی نکلتا ہے، جیسا ہمارے والدین اور ہمارے اساتذہ نے ذہن سازی کی ہوتی ہے، جب نوجوان معاشرے کے کسی ادارے میں جاتا ہے تو وہاں وہ ظالم بن جاتا ہے۔ جب وہ ڈاکٹر بنتا ہے تو علاج کرنے سے پہلے پیسے کو اولین ترجیح دیتا ہے ۔ جب وہ وکیل یا جج بنتا ہے تو انصاف مقصود نہیں ہوتا، بلکہ جو اس نے 20سالوں سے پڑھا ہے اسی پر عمل کرتا ہے۔ جب وہ محافظ عوام یعنی پولیس بنتا ہے تو رشوت کے ذریعے پسیہ نکالتا ہےاور اسی طرح مذہب کا پیشہ بھی اس آفت سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ غرض ملک کا ہر شعبہ اور ادارہ پیسے اور دولت کے گرد گھومنے لگتا ہے۔
اَب سوال یہ ہے کہ یہ ماحول کیسے بنا ؟ اور 75سالوں سے یہ ماحول کس طرح قائم ہے ؟؟
یہ ماحول یہاں کے بنیادی ریاستی اداروں نے پیدا کیا ہے، جب پاکستان بنا، تب یہاں عوام کا بہت بڑا غریب طبقہ موجود تھا اور دوسرا چند خاندانوں پر مشتمل ایک امیر طبقہ تھا ،جس میں(1) سرمایہ دار (2) جاگیردار (3) افسر شاہی شامل تھے اور یہاں سسٹم کے بنیادی اداروں پر یہی لوگ قبضہ کرکے بیٹھ گئے۔ ان چاروں طبقوں کا اصل مقصد قومی دولت کو لوٹنا تھا تو پاکستان میں ایسا نظام ترتیب دیا گیا، جس کے ذریعے عوام سے دولت ایک خاص طبقے کے پاس اکٹھا ہونا شروع ہوگئی اور دوسری طرف ایک اور طبقہ جوکہ محنت سب سے زیادہ کرتا ہے، لیکن اس دولت میں ان کا حصہ موجود نہیں ہے۔ یہ 2 فی صد استحصالی ٹولا سسٹم کی اتھارٹی پر قابض ہوکر ساری دولت کو اکٹھا کرکے بغیر کسی محنت کے قابض ہوگیا۔ اپنی اس سرمایہ پرستانہ سوچ کو عملی اور قانونی شکل دینے کے لیے یہ طبقہ ریاست کے تینوں ستونوں(مقننہ،انتظامیہ اور عدلیہ) بلکہ میڈیا ( جس کو آج کل ریاست کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے) پر بھی قابض ہوگیا ہے۔ غرض پارلیمنٹ یعنی مقننہ (جہاں قانون سازی کی جاتی ہے) انتظامیہ یعنی سول بیوروکریسی (جو قانون کو لاگو کرتی ہے) اور عدلیہ (جو اس قانون کی تشریح کرتی ہے) اس مخصوص طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔
ان بڑے اداروں کے ماتحت مختلف چھوٹے چھوٹے ادارے بھی ہوتے ہیں جیسے!
(1) تعلیم کاادارہ
(2) صحت کا ادارہ
(3) مالیات کے ادارے
(4) الیکشن کا ادارہ
ان اداروں کے عملی اشتراک سے ملک کا ماحول بنتا ہے اور عوام اسی ماحول میں پلتی ہے۔ اَب اس نظام کی اصل جڑ سرمایہ پرستانہ فلسفہ ہے، مطلب یہ ہے کہ ملک کے اندر جتنے بھی برے کام یا جرائم ہوتے ہیں وہ اس سرمایہ پرستانہ سوچ کی وَجہ سے ہوتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قصور عوام کا نہیں ہے، بلکہ ملک کے تباہ ہونے میں انھی طبقات کی منفی اور مفاداتی سوچ کارفرما ہے، جسے اوپر ذکرکیاگیا ہے ۔ عوام تب ہی ٹھیک ہوسکتی ہے، جب ماحول ٹھیک ہو اور ماحول سسٹم کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ اس لیے عوام کو ٹھیک کرنے کے لیے درست نظام کا ہو نا ضروری ہے۔ورنہ جتنا مرضی آپ اصلاحی کام کرلیں، اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ اس سسٹم کے اندر رہ کر سسٹم کو درست نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ اس نظام میں حکومت میں وہی شخص آسکتا ہے، جس کے تعلقات سرمایہ دار ، جاگیردار اور افسر شاہی سے ہوتے ہیں۔
پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں یہ بات واضح ہے کہ حکمران طبقہ عوام میں سے نہیں ہوتا، جب کہ مصیبتوں یا طوفانوں، زلزلہ یا قحط آئے، نقصان ہمیشہ عوام نے اٹھایا ہے۔
ہمارے ملک میں کچھ لوگ ادارہ جاتی اصلاح کی بات کرتے ہیں، جیسے کہ اگر تعلیم کا ادارہ ٹھیک کرلیا جائے تو معاملات صحیح ہو جائیں گے، یا عدلیہ صحیح ہو جائے تو ملک ٹھیک ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ یہ سوچ زمینی حقائق کے منافی ہے کیوں کہ یہ مسائل تب تک جاری رہیں گے، جب تک ان کی اصل وجوہات یعنی نظام حکومت کو درست نہ کر لیا جائے۔