یہ محض سیلاب نہیں ہے!
بین الاقوامی فنڈ ریزنگ کے لئے سیلاب زدہ علاقے ایک بہترین پریزنٹیشن بن جاتی ہیں اور پانچ سے دس سال انفراسٹرکچر کی بحالی کے نام ایک بہت بڑی کرپشن
یہ محض پانی کا سیلاب نہیں ہے!
امان اللہ گلال۔ حیدرآباد
قدرت کی کارگزاری سیدھی، سادہ اور یک رنگ نہیں ہوتی، بلکہ تنوعات، مختلف حقائق اور رنگینیوں سے بھری پڑی ہے۔ تنوعات قدرت کی سب سے بڑی خوب صورتی اور حقیقت ہے۔
یہ ہی حقیقت موسموں اور اس کے اَثرات پر بھی صادق آتی ہے۔ سردی و گرمی، ہوائیں و بارشیں، خشک سالی و سبزہ، پہاڑ و صحرا، سیلاب و طوفان وغیرہ قدرت نے اس کائنات میں یہ سب تنوعات و حقائق سمو دیے ہیں۔ موسمی تبدیلی، جوکہ ایک گردشی اَثر یعنی سائیکلک افیکٹ رکھتی ہے، اپنے اندر بہت ساری نعمتیں چھپائے رکھتی ہے۔ انسان کے ذمے اپنی انتہائی صلاحیت اور لیاقت کو استعمال میں لاکر بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے ان نعمتوں کو قدرت کے ہاتھ سے وصول کرنا ہے۔ یہ کوئی حیرت اور اچھنبے کی بات نہیں، بلکہ حقیقت ہے۔ دنیا کے بے شمار ممالک اور اقوام اس طرح کی شہری منصوبہ بندی کے ذریعے قدرت کے بہ ظاہر ہول ناک مناظر کو سودمند بنا چکی ہیں اور بے شمار فوائد حاصل کر رہی ہیں۔
اس سال کی موسمی گردش، شدید اور سیلابی بارشوں کی وَجہ سے ملک بھر میں اپنی تباہی پھیلاتی رہیں۔ خاص کر سندھ کے اندر سیلاب کی صورتِ حال بہت زیادہ سنگین واقع ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے ابتدائی دنوں کے بیانات کے مطابق قریباً ایک کروڑ لوگ سیلابی بارشوں کی وَجہ سے متاثر ہوئے ہیں، مگر حقائق اس سے کہیں زیادہ بھیانک دکھائی دے رہے ہیں۔ فصلوں، جانوروں اور املاک کا نقصان الگ سے ہے۔ لوگوں میں پھیلتی بیماریوں کا کوئی حساب نہیں، جس کی وَجہ سے بہت ساری ادویات کی مارکیٹ میں شدید قلت ہوچکی ہے، آنے والے دِنوں میں متوقع غذائی قلت عوام کے لیے مزید عذاب کا سبب بن سکتی ہے۔
یہ گرتے مکان، بہتے فصل، بے گھر ہوتے لوگ، بے شمار اموات، مرتے جانوروں کے پیچھے محض بارشیں، سیلاب اور قدرتی کی کارفرمائی نہیں، بلکہ اَور بھی بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے، جس میں ہمارے اہل اقتدار اور اداروں میں بیٹھے بھاری تنخواہیں، انگنت دیگر فوائد لینے والی اشرافیائی بیوروکریسی کی سنجیدگی، صلاحیت اور کارکردگی بکھری پڑی ہے۔ نہ جانے ان کے اپنے من میں یہ سب عواقب دیکھنے کے بعد بھی اپنی صلاحیت پہ شک گزرتا ہوگا کہ نہیں۔
75سال سے کسی شہری منصوبہ بندی کا کوئی تصور یا خیال ہمارے نمائندوں اور "اعلیٰ تعلیم یافتہ" سرکاری افسران کےتصور و تخیل میں بھی نہیں۔ ایسا کوئی وہم بھی ان کے دل وماغ کے کسی کونے سے نہیں گزرا۔
ہم بہ حیثیت قوم جن بنیادی شہری اور انسانی مسائل سے دوچار ہیں، دیگر ترقی یافتہ اقوام ایک صدی قبل حل کرچکی ہیں۔ ممالک موثر منصوبہ بندی اور فعال اداروں کے ذریعے اس سے کہیں زیادہ اور شدید بارشوں سے فائدہ حاصل کرنے اور انتظام کرنے کا طریقہ کار دریافت کرچکے ہیں۔ بارشوں کے پانی کو جمع کرنے کی گنجائش پیدا کرکے اسی ذخیرے سے پینے کا پانی حاصل کرنے کا طریقہ کار بہت سارے ممالک ترتیب دے چکے ہیں۔ اس سے نہ صرف شہری و دیہاتی آبادی کو سیلابی بارشوں کے نقصانات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، بلکہ اسی پانی کو آبادیوں کی ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ کب تک ہم قدرت کی ان انواع و اقسام نعمتوں، جن سے اقوام عالم فائدہ اٹھاتی ہیں، ان سے بھی خائف و محروم رہیں گے؟
یہ بارشیں، یہ سیلاب صرف عام لوگوں کا ہی "سب کچھ" نگل کر لے جاتا ہے، لیکن ایک "مخصوص طبقے"کے ہاں یقیناً جشن ہی جشن کا سماں ہوگا۔ یہ صاحبِ اقتدار طبقہ ڈوبتے، بے گھر ہوتے اور سڑک کنارے کھلے آسماں تلے رہنے والے لوگ، مرتے جانور، برباد ہوتی ہوئی فصلیں اور آبادیاں، میلوں تک آب زدہ علاقہ جات، شہروں اور گاؤں میں ہفتوں تک کھڑا پانی اور اس قسم کی تباہیوں کی تصاویر دکھا کردنیا سے حکومتی نمائندے اور این جی اوز ایک کثیر رقم بٹور لیتے ہیں، جو کبھی بھی لوگوں تک نہیں پہنچتیں، یہ طبقہ یقیناً ایسے انسانی المیوں پہ شادماں ہوتا ہوگا، بلکہ کئی علاقوں میں مصنوعی طور پر سیلابی کیفیت خود سے یا نااہل و ناقص منصوبہ بندی سے پیدا بھی کی گئی۔
دوسری طرف سیلاب کی نذر ہوتے روڈ، شاہراہیں، ریلویز، عمارات اور شہروں میں ہونے والے نقصانات یعنی پورا اور مکمل سماجی ڈھانچہ اور پھر ان نقصانات کے ازالے کے نام پر پھر سے اربوں کھربوں روپے کی لاگت سے مرمت، بسااوقات ان کو دوبارہ سے بنانا، جس کی مرمت اور بنانے پر کرپشن اور کمیشن کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔ یہ ہی سبب ہے کہ ان بارشوں اور سیلابوں وغیرہ کا لوگوں کے لیے عذاب کی وَجہ بننا بھی لازم اور ضروری امر ہے کہ اس ملک کی انتہائی معزز اشرافیہ کے لیے مزید خوش حالی اور شادمانی کا پیغام لاتی ہے۔ کیوں کہ اس میں دوہرا، دگنا اور دو طرفہ فائدہ پنہاں ہے، ایک بین الاقوامی فنڈ مہم کے لیے سیلاب زدہ علاقے ایک بہترین پریزنٹیشن بن جاتی ہیں تو دوسری طرف آگے پانچ سے دس سال انفراسٹرکچر کی بحالی کے نام پر ایک بہت بڑی کرپشن کی دیگ پک رہی ہوتی ہے۔
کچھ علاقوں میں لوگ مشتعل ہوکر سیاسی نمائندوں کا گھیراؤ کرتے رہے، تو کہیں پہ سرکاری بابوؤں پہ جان لیوا حملہ بھی کیا گیا۔ لوگوں کا صبر لبریز ہو رہا ہے، ردعمل کا اِظہار شدت مگر غیرمنظم طریقے سے کیا جارہا ہے۔ شاید اس حقیقت کا ادراک ان تمام ذمہ دار طبقات کو بھی ہے کہ تقریباً ہر ایک سیاسی نمائندہ، بیوروکریٹ، ایک سے زیادہ ویزا رکھنے کا عادی تو ضرور ہے اور یہ اس کی ضرورت بھی ہے۔ سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں بیوروکریٹ کسی دوسرے ملک کی شہریت کے حامل بھی پائے جاتے ہیں۔ یقیناً وہ لوگوں کے ردِعمل کے طریقہ کار اور شدت اور اس کی سائنس سے واقف ضرور ہیں۔ خدا نہ خواستہ، یہ عوامی ردِعمل بغیر کسی معین مقاصد، شعور اور منظم حکمتِ عملی کے پھوٹ پڑا تو وہ خود اپنے لیے انتہائی بھیانک اور غیرانسانی نتائج لائے گا۔
انگریز دور کی کالونیل سیاست کی کھنڈرات پر قائم یہ نظام اور ریاست کا ڈھانچہ، جس میں ہم زندگی "بھگت " رہے ہیں، اس کے سیاسی کھیل میں بائیس کروڑ لوگ تاش کی گڈی کے جوکر سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے، اگر تاش ڈبے میں بند ہو تو ہی اس کا حصہ ہے ورنہ کھیل کے دوران تاش کے پتوں میں کوئی گنتی میں نہیں آتے۔ نہ ان کا کوئی رنگ ہے نہ قدر۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ سیاسی تاش کی اس گڈی کے بنیادی پتے اپنی طاقت اور اختیارات انتخاب کے نام پر بہ ظاہر انھی جوکروں سے لینے کا ناٹک کرتے رہتے ہیں اور جونہی الیکشن گزرتا ہے، جوکروں کے تمام تر حقوق اور قدریں کالعدم قرار پاتے ہیں۔
طبقاتی نظام اور سماج میں یہ کوئی غلط بات تصور نہیں کی جاتی، جانوروں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں، مگر نظامِ زر کے تسلط تلے سماج میں لوگ تو بس جانوروں سے بھی بدتر خدمت اور استحصال کے لیے ہوتے ہیں۔ طاقت، اختیار اور بے حساب معاشی وسائل، جس طبقے کے ہاتھ میں مرتکز ہوتے ہیں۔ وہ ہی اصل اور تمام تر حقوق کا مالک و مختار سمجھا جاتا ہے اور ایسے طبقے کو انسانی اوصاف سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا اور اسی بے رحمی، استحصال پسندی اور آمریت کے خلاف قدرت نے انسانیت کے اندر بے اندازہ مزاحمتی قوت بھی رکھی ہے، جس کے مثبت، منظم اور اجتماعی طور پر استعمال سے خود مظلوم و مجبور انسان کو ہی بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔