فرعونی سیاسی نظام ایک جائزہ
وطن عزیز میں موجود فرسودہ سیاسی نظام کی خرابیوں کی ایک جھلک
فرعونی سیاسی نظام ایک جائزہ
تحریر :تنویر احمد سلہریا، مانسہرہ
ہر قوم آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنا آزاد اور خودمختار سیاسی،معاشی اور تعلیمی نظام بناتی ہے، لیکن ہم نے سات دہائیوں سےزائد گزارنے کے باوجود اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ بلکہ پہلےدن سے وہی فرسودہ طبقاتی نظام جو انگریز نے ہمیں غلام بنانے کے لیے، ہماری دولت ہتھیانے کے لیے،ہمارے وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے نافذ کیا تھا، کو من و عن یہاں جاری رکھا، جس نے ہمیں بہ حیثیت قوم تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ تاہم یہاں صرف سیاسی نظام پر بات کرنی مقصود ہے، اس لیے اسی دائرے میں بات ہوگی۔ ملکی سیاسی نظام کو جانچنے سے پہلے ایک اچھے سیاسی نظام کی خوبیاں مدنظر ہونی ضروری ہیں ۔ایک اچھا سیاسی نظام وحدت انسانیت کی اساس پر قائم ہوتا ہے۔ وہ جان و مال اور عزت کا تحفظ بغیر رنگ ونسل اور مذہب کی تمیز کے فراہم کرتا ہے۔وہ رائے کی آزادی دیتا ہے۔ وہ بنیادی انسانی حقوق کا ضامن ہوتا ہے۔ عوام کے لیے خیر وبرکت کا ذریعہ ہوتا ہے، وسائل معیشت کی تقسیم کو عادلانہ اصولوں پر یقینی بناتا ہے ۔ جب کہ فرعونی سیاسی نظام "تقسیم کرو اور حکومت کرو"کی پالیسی پر گامزن ہوتا ہے ۔"جس کی لاٹھی اس کی بھینس"کے فلسفے پر صرف طاقت ور کی جان ،مال اور عزت کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور انھی کے حقوق کا نگہبان ہوتا ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماراملکی سیاسی نظام بھی کچھ ایسا ہی ہے، جس سے عام عوام کی توقعات کبھی پوری نہیں ہوسکتیں،اس نظام کے تحت ہونے والا الیکشن بھی محض ایک ڈرامے کے سوا کچھ نہیں۔ کیوں کہ الیکشن کو بھی انڈسٹری بنا دیا گیا ہے، اس میں حصہ دار بننے والے لوگ سب کے سب نہلے پہ دھلے کے چکر میں ہوتےہیں۔ مال لگاؤ الیکشن جیتو اور پھر چار،پانچ سال تک خوب مال بناؤ۔صوبائی یا قومی اسمبلی کے الیکشن تو کروڑوں کی گیم ہے، جس کی وَجہ سے اس سطح پر انوسٹر کم دکھائی دیتے ہیں، جب کہ بلدیاتی سطح پر تو تمام بے روزگار اپنی قسمت بدلنے میدان میں اسی امید کے ساتھ اُترتے ہیں کہ کسی اَور کا کچھ ہو یا نہ ہو، ہمارے تو دن پھر جائیں گے۔
یہاں ایک بات بہت دلچسب ہے کہ چاہے جس سطح کا بھی الیکشن ہو، سب کو فرعونی سیاسی نظام کے اصول از بر یاد ہوتے ہیں کہ الیکشن کمپین میں بے بنیاد دعوے کرکے زمین و آسمان کی قلابے ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا جھوٹ کا ریکارڈ بنانے میں ایک سے ایک بڑھ کر ہوتا ہے جو جتنا جھوٹا اور منافق ہوتا ہے، اسے اتنا ہی ماہر سیاست گردانا جاتا ہے اور ان کی مہارت اس وقت اور کھل کر سامنے آجاتی ہے، جب الیکشن کے دن قریب آتے ہیں۔ کیوں کہ یہ اپنی سیاسی بصیرت سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اَب حکومت کی فاختہ کس کے سر پر بیٹھنے والی ہے۔ سب اسی پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں اور اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے میں زرا دیر نہیں لگاتے۔ نتیجتاََ ہر پانچ سال بعد پارٹی تو بدل جاتی ہے، مگر چہرے نہیں بدلتے،اس سیاسی نظام سے مستفید ہونے والی سیاسی پارٹیاں جو اپنے آپ کو جمہوری سیاسی پارٹیاں کہتی ہیں اور جمہوری سیاسی نظام چلانے کا دعویٰ کرتی ہیں وہ بھی ایک فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ ساری کی ساری سیاسی پارٹیاں موروثی سیاست پر عمل پیرا ہیں۔ اس لیے وہ خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں بن کر رہ گئی ہیں، جن کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ ان کی کامیابی کا انحصار بھی سرمایہ دار، جاگیردار الیکٹیبل پر ہوتا ہے جو جس پارٹی میں شامل ہوں، حکومت اسی کی بنتی ہے۔ لیکن اس گورکھ دھندے کو عوام ہمیشہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں، جس کی وَجہ سے وہ ہر بار ان کے دھوکے میں آجاتے ہیں،بہل جاتے ہیں۔ ہر بار نئی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں ، حال آں کہ انھیں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ان سے اپنا پیچھا چھڑانے کی سوچ اختیار کرنی چاہیے۔ملکی سیاسی پارٹیاں اور سیاست دانوں کے طرزِعمل نے سیاست کے معنی ہی بدل کر رکھ دیے ہیں۔ سیاست کا لفظ ایک گالی بن کر رہ گیا ہے۔ حال آں کہ سیاست انبیاعلیہم السلام کی سنت ہے۔ بہت اعلیٰ مرتبے کا کام ہے۔ انسانیت کی بے لوث خدمت کا نام ہے، مگر جب سوسائٹی کی تشکیل ہی غلط فکر پر ہوگی تو اس کے تحفظ کے لیے جو سیاسی نظام بنے گا وہ بھی ناسور ہی ہوگا ،دردسر ہی ہوگا ،جو لوگوں کے مسائل حل کر نے کے بجائے ان کے لیے بے شمار پریشانیوں کا باعث بنے گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فرسودہ سیاسی نظام سے جان چھڑاتے ہوئے صالح سیاسی نظام کے قیام کے لیے سنجیدہ کوشش اختیار کی جائے۔