امریکہ ، عالم اسلام اور زوال
عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کا زوال ایک نظر میں ۔
عالم اسلام؛ امریکا اور زوال
کامران احمد، دیر لوئر
’’صلاح الدین ایوبی اُٹھو اور دیکھو ہم نے یروشلم پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ ہم پھر آگئے ہیں، ہمت ہے تو ہمیں یہاں سے نکالو‘‘۔
یہ تھے وہ الفاظ جو فرانسیسی جرنیل نے پہلی جنگ عظیم کےموقع پر صلاح الدین ایوبی کے مزار پر کھڑے ہوکر کہے تھے۔ایک زوال یافتہ معاشرے کے دانش وروں اور سوچ بچار کرنے والے افراد کو اپنی ناکامیوں اور بار بار دہرائی جانے والی غلطیوں کا ازالہ کرنےکی ضرورت ہے اَب جو دنیا گلوبل ویلج (عالمی شہر) بن چکی ہے، دنیا کے کونے کونے میں مسلمان اور غیرمسلم ایک ساتھ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرتے رہتے ہیں، دنیا کے کسی ایک کونے میں پیدا شدہ مسئلہ پوری دنیا کو متاثر کررہا ہوتا ہے۔اسی اثنا میں اَب صرف مسلمان مسلمان والا کھیل ختم ہوگیا،اَب جو سوچنا ہوگا تو عہد نبویﷺ اور عروج کے دور کے تناظر میں، یعنی کل انسانیت کی بقا و فلاح کے لیے۔ کیا اس طرح انسانیت گیر بین الاقوامی مسائل کے حل کے لیے ایک ہمہ گیر نظام کی ضرورت نہیں ہے؟
ان سوالات پر اَب سوچنا ہوگا اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
مشہور مؤرخ و فلسفی ول ڈیورانٹ نے سٹوری اور سویلائزیشن کے سلسلے کی کتاب ’’دی ایج آف فیتھ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے نقیب بہت آگے تک دیکھ سکتے تھے، کیوں کہ وہ مسلمان دانش وروں کی تحقیق اور سوچ بچار کے کندھوں پر کھڑے تھے‘‘۔
یہی الفاظ سابق امریکی صدر نکسن نے اپنی کتاب ’’سیز دی مومنٹ‘‘ میں خصوصیت سے ذکر کیے ہیں۔ کیوں کہ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے سپین کو فتح کرلیا تو ان کی قائم کردہ درس گاہوں سے نکلنے والی علم، عقل اور شعور کی روشنی سے ہسپانیہ میں پیدا مذہبی رواداری نے اُجڈ اور وحشی یورپ کو حیران کر کے رکھ دیا۔ اسلام کے انھی سنہرے اصولوں کے نتیجے میں یورپ کے اندر علم و شعور کے دیے جل اُٹھے۔
ہسپانیہ سے مسلمانوں کی بے دخلی کے بعد 16 ویں صدی میں علمی و شعوری تحریکیں دم توڑ گئیں۔ اس کا آغاز 13 ویں صدی سے شروع ہوا تھا۔ مسلمان علمی بانجھ پن کے ایک ایسے تابوت میں اتر گئے، جس کے سرہانے سر پکڑ کر بیٹھنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکتے تھے۔شان دار ماضی کو دیکھنے اور خون کے آنسو رونے کے سوا کچھ نہ تھا۔ 13 ویں سے 17 ویں صدی تک مسلمانوں میں کوئی ایسا مشہور فلسفی،مفکر اور سائنس دان پیدا نہیں ہوا، جو اس دور میں ملت کی اجتماعی رہنمائی کرسکے۔ اسی دور میں یورپین طلبا نے علم سیکھ کر اپنے مسلم استاد کو پچھاڑ دیا اور پھر علم کے ذریعے بجائے انسانیت کی خدمت کے، سرمائے کی ہوس میں انسانیت پر ہی چڑھ دوڑے۔ اور یوں مسلمان ممالک کے علاوہ دیگر افریشیائی اور ہم مذہب لاطینی امریکی ممالک پر تسلط حاصل کرلیا، تو دورِغلامی میں کاہے کے سائنسی علوم و فنون اور کاہے کی انسانیت کی علمی و فلسفیانہ رہنمائی۔
18 ویں صدی میں تھوڑی سی جنبش پیدا ہوئی اور قومی آزادی اور علمی و فکری رہنمائی کے حوالے سے دنیا میں تحریکیں شروع ہوئیں،عربوں،ترکوں ،مصریوں میں بےداری دیکھنےمیں آئی جب کہ برصغیر میں امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ جیسے قومی رہنما و مفکر پیدا ہوئے۔جنھوں نے آزادی و حریت کا علم بلند کیا،شعور بےدار کیا ، علمی بانجھ پن توڑنے کی کوشش کی اور مسلمانوں میں حریت کا جذبہ پیدا کیا۔
خواب خرگوش میں سوئے ہوئے مسلمانوں اور حکمرانوں نے جب 20 ویں صدی کی دنیا میں قدم رکھا تو وہ حیران و پریشاں تھے،کیوں کہ دنیا میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں آچکی تھی یا آرہی تھیں۔ اس صدی کو انقلابات کی صدی کہا جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے ہوگئے تھے۔مسلمانوں کے پاس یادِ ماضی کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور یورپ خلاؤں میں اُڑنے کی تیاریاں کررہا تھا۔ سلطنت ختم ہوتے ہی مسلمانوں میں مرکز کی حیثیت معدوم ہوکر رہ گئی۔ مسلمان خطے نوآبادیاتی نظام کے حصے میں آئے، یورپ نے دنیا کو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور جنگوں سے قبضہ کرکے اپنے درمیان تقسیم کردیا گیا۔
20 صدی تک نیم خاموش اور بعد میں زور و شورسے اُبھرنے والی طاقت ریاست ہائے متحدہ امریکا کا دنیا میں ایک نئی طاقت کے طور پر اضافہ ہوا اور طاقت بھی ایسی کہ جوع الارض کی ہوس میں باقی دنیا کو ہی پیچھے چھوڑ دیا۔امریکا نے دنیا میں استحصال اور پاور پالیٹکس کانیاچلن چلایا ہے، ممالک کی پالیسیاں Realism کی بنیاد پر بنتی ہیں، یعنی ہر ملک اپنے مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے۔ امریکا اور یورپ جو خود کو جمہوریت، انسانی حقوق اور لبرل اِزم کا چیمپین بناکر پیش کرتے ہیں، لیکن کرتے اس کے برعکس ہیں، ایک طرف جب یورپ اور امریکا میں انسانی حقوق پر پارلیمنٹ میں ڈسکشن ہوا کرتی تھی تو دوسری طرف جلیانوالہ اور بابڑہ جیسے واقعات ہوا کرتے تھے۔ جمہوریت سکھانے والوں نے ہی افریشیائی اقوام کو نوچ کھسوٹ لیا، آزادی اور انسانی حقوق کے بزعم خود علم برداروں نے اقوامِ عالم کو غلام اور ان کے وسائل پر قبضہ کرلیا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر لٹل بوائے اور فیٹ مین گرایا گیا، جب کہ دلیل یہ دی جا تی تھی کہ یہ جمہوریت اور آمریت کی آخری جنگ ہے۔ کیا جمہوریت اتنا قتل عام چاہتی ہے؟ آزادی کے نام پر انھی کالونیوں پر توانا سامراج نے قبضہ کرلیا، چوں کہ زیادہ تر کالونی مسلمان ممالک پر مشتمل تھی جو کہ 70 فی صد عالمی تیل کے مالک ہیں۔ کوریا، ویت نام،عراق،افغانستان،لیبیا،شام میں جمہور کے قتل عام کا ننگا ناچ اسی جمہویت کے انھی علم برداروں نے نہیں کھیلا، تو پھر کس نے کھیلا؟ الزام، جوکہ مبنی بر حقیقت ہے، تو امریکا کے سر ہی جائے گا، لیکن اپنی غلطیوں کو بھی بھولنا نہیں ہوگا۔
دوسری جنگ عظیم،جوکہ دراصل سرمایہ دار کے مفادات اور کالونیوں کی بندربانٹ کی جنگ تھی، میں برطانیہ جو جنگ جیت کر بھی ہار گیا،جس کی سلطنت پر سورج غروب نہ ہوا کرتا تھا، وہ ایک جزیرہ تک سکڑ گیا۔ اس جنگ نے یورپ کو تباہ کردیا تھا، لیکن امریکا کو فائدہ ہی فائدہ ہوا۔ ایک تو ان کی ہتھیاروں کی صنعت نے خوب ترقی کی، مارشل پلان سے پرانی ٹیکنالوجی یورپ کو فروخت کردی، جب کہ برطانیہ نے کالونیوں کو امریکا کے سپرد کردیا،جس نے مزید استحصال کیا۔ سردجنگ کے دوران دنیا دو مورچوں،وارسا پیکٹ (روسی سربراہی میں سوشلسٹ ممالک کا اتحاد) اور نیٹو (امریکی سربراہی میں سوشل اِزم مخالف اتحاد) قوتوں میں تبدیل ہوکر رہ گیا۔آہنی پردے کے پیچھے روس کی برآمدگی سے پہلے مسلمان گماشتہ حکمرانوں نے دوستی کے نام پر امریکی مورچہ سنبھال لیا۔ ایران، ترکی اور پاکستان فرنٹ پر روس کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔ پشاور کے علاقے بڈہ بیر سے U-2 K طیارے محو پرواز ہوکر ترکی ائربیس پر لینڈ کرتے تھے۔ اس کے بدلے میں پاکستان کو کیا ملا، 20-25 سال غیر یقینی صورت حال کے بعد دہشت گردی،ہیروئن،کلاشنکوف کلچر اور طالبان ہی ملے۔اس دوستی سے عربوں کو شام کی بربادی،القاعدہ، داعش ،اسلحہ کلچر،عراق،لیبیا،افغانستان کی صرف تباہی وبربادی ملی-
امریکا کے تاج کے ہیرے بالآخر دہشت گرد بن گئے۔ یہ بات ان دِنوں کی ہے، جب افغان جہاد کے دوران مجاہدین سربراہان نے امریکا کا دورہ کیا تو اس وقت کے صدر ریگن نے روایات سے ہٹ کر وائٹ ہاؤس سے باہر آکر ان کا استقبال اور ان کے اعزاز میں پر تکلف عشائیہ دیا،لیکن جیسے ہی سویت یونین ٹوٹ گیا۔ یہ ہیرے دہشت گرد قرار دیے گئے۔
اگر ہم آزادی چاہتے ہیں، اگر ہم چاہتے ہے کہ ہمارے مقدس مقامات محفوظ ہوں،اپنے وسائل کا کنٹرول اور مغربی مداخلت کو بے دخل کرنا ہو، اور اس فرانسیسی جرنیل کو جواب دینا ہو، تو ہمت پیدا کرنی ہوگی۔ جذبات، جلسے جلوس اور نعرہ بازی کے بجائے ہر مسلمان قوم کو حقیقی بنیادوں پر آزاد ہوکر، گماشتہ اور آلہ کار حکمرانوں سے نجات حاصل کرکے علمی، اقتصادی اور سیاسی نظام کو عالمگیر نئے فکری اقدار پر قائم کرکے ہی ہم آگے ترقی کرسکتے ہیں۔