نیکی کا انفرادی تصور اور نظام کا استبدادی شکنجہ
نظام ظلم میں انفرادی عمل کا تحلیل و تجزیہ
نیکی کا انفرادی تصور اور نظام کا استبدادی شکنجہ
تحریر. توصیف افتخار . لاہور
آ ج کے اس دور افتاد میں بھی ایک خاص نقطہ نظر سے اچھا ہونا چنداں مشکل نہیں۔ بلکہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں95 فیصد لوگ اپنے آپ کو اچھا ہی سمجھتے ہیں۔ آپ شاید پوچھیں کہ وہ کیسے وہ اس طرح کہ جب ممبر سے یہ حدیث سنائی جاتی ہے:
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ۔ (مشکوۃ شریف کتاب الایمان)
ترجمہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے مسلمان محفوظ رہیں۔"
پھر ہمارے واعظ جب اس حدیث کی تشریح کرتے ہیں تو یقین جانیں دل میں ایک قسم کا اطمینان سا پیدا ہو تا چلا جا تا ہے کہ الحمداللہ ہم پکے مومن ہیں۔ یقیں جانیے ہمارے ہاں اکثر لوگ حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان محفوظ رہیں۔ لیکن ایک بات پھر سمجھ نہیں آتی 95 فیصدی مومنین کا معاشرہ آخر عذاب الٰہی میں مبتلا کیوں ہے؟ معاشی بد حالی اور سیاسی پستی کا شکار کیوں ہے؟ بد اخلاقی ، دھوکا دہی میں دنیا کے ٹاپ ممالک میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ کیا صرف پانچ فیصد نے ہمیں دنیا میں بدنا م کر رکھا ہے؟ کیا صرف پانچ فیصد لوگ اس عذ اب الٰہی کا سبب ہیں؟
جب کسی معاشرے میں نیکی اور اچھائی کا انفرادی تصور رائج ہو اور نظام کی تباہ کاریاں نظروں سے اوجھل رہیں تو اسی طرح کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ایسا معاشرہ اجتماعی شعور سے عاری ہوتا ہے۔ نیکی اور اچھا ئی کے انفرادی تصور سے مراد ذاتی اور انفرادی عمل اوراس کے نتائج کو ارد گرد، معاشرے اور ماحول سے کاٹ کر دیکھنا ہے۔ جبکہ اجتماعی شعور یہ ہے کہ کسی بھی عمل کا ماحول و معاشرے اور ارد گرد کے وسیع تناظر میں اس کے نظام کی روشنی میں جائزہ لیا جائے ۔ اگر آج کی سائنسی دنیا میں ادارہ جاتی مینجمنٹ کا مطالعہ کیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ اداروں کا ان کے سسٹم کے حوالے سے مطالعہ کیا جاتا ہے. کسی ادارے کا اس کے نظام کے حوالے سے مطالعہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ عوامل اور مسائل کا تجزیہ اسباب اور نتائج کے تناظر میں کیا جائے۔ جس کے لیے کسی بھی عمل کے ساتھ ساتھ اس کے ماحول اور عمل پر اثر انداز ہونے والی قوتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اب اسی بحث کی روشنی میں ہم اپنے اچھے ہونے کا تجزیہ کر لیتے ہیں۔
آغاز ایک سادہ سی مثال سے کرتے ہیں۔ علی بابا چالیس چور کی کہانی سے تو سب واقف ہیں لیکن ہم تھوڑی سی ترمیم کر لیتے ہیں اور اس گروہ میں ایک فرد کا مزید اضافہ کر لیتے ہیں علی بابا چالیس چور اور ایک خزانچی ( اکاؤنٹنٹ)۔ جی ہاں! یہ خزانچی ان کے اکاؤنٹس کا حساب و کتاب کرتا ہے اور چوری کے مال کی منصفانہ تقسیم اس کی ذمہ داری ہے۔ اور یقیناً علی بابا نے اس کےلیے ایک ایمان دار اور نیک شخص کا انتخاب کیا ہو گا۔ اب اگر یہ خزانچی ہمارے واعظ کے مطابق اپنے انفرادی عمل کو دیکھے تو اسے اپنے سے بڑا مومن کوئی اور شاید ہی نظر آئے لیکن سمجھدار قارئین اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اگر اس گینگ کو قانونی گرفت میں لایا جائے تو علی بابا کے ساتھ اکتالیس چور گِنے جائیں گے۔
تو آئیے اب ہم اپنے انفرادی اعمال کا بھی اجتماعی شعور کے ساتھ احتساب کر لیں۔ واقعہ تو یہ ہے کہ ہم ایسے نظام میں رہ ہے ہیں جو غریب کا خون چوستا ہے۔ اس نظام کے فرعونی طرز عمل سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ یہاں کی عدالتیں طبقاتی انصاف بانٹتی ہیں۔ جو بذات خود قتلِ انصاف کے مترادف ہے۔ یہاں کی انتظامیہ عوام کو حقیر کیڑے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی ۔ یقین نہ آئے تو ان کے در پر عوام کو اپنے جائز حقوق کے لیے خوار ہوتے دیکھ لیں ۔ یہاں کامعاشی ، سودی نظام عوام کا معاشی قتل کرتا نظر آئے گا۔ غریب کی محنت پر ٹیکسز کی تیز دھار چھری چلتی ہے اور اس کے لہو سے اشرافیہ غسلِ کرتی نظر آئے گی۔ اس نظام ظلم و استبداد کے اداروں میں اچھے لوگ کس قدر ایمان داری اور اطمینان سے اپنے فرائض منصبی سر انجام دیتے ہیں اور سو چتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان کتنے محفوظ ہیں ۔ حالانکہ اگرہم اجتماعی شعور سے جائزہ لیں تو ہم ظالم کے دست و بازو ہیں۔ اور اس نظام ظلم کو قائم و دائم رکھنے میں اچھے لوگ ہی کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ اگر کسی نظام میں سارے ہی کرپٹ عناصر ہوں تو ایسا نظام تو خود ہی تباہ ہو جا تا ہے۔
اس تحریر کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ لوگوں کو مائل و قائل کیا جائے کہ وہ اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ بلکہ اصل مقصد یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ اس نظام ظلم سے برأت کا اعلان کیا جائے۔ اور اس بات کا حقیقی ادراک پیدا کیا جائے کہ نظام ظلم کے خلاف کسی شعوری جدوجہد کا حصہ نہ بننا اور نیکی اور اچھا ئی کے انفرادی تصورات کے تحت اپنے آپ کو ہر ذمہ داری سے بری الزمہ سمجھنا خام خیالی ہے۔ وہ نوجوان نسل جس کا خیال ہے کہ ہمارے ہاتھ اور زبان سے براہ راست کسی کو نقصان نہیں پہنچ رہا تو سب ٹھیک ہے وہ جان لے کہ ایسا ہر گز نہیں بلکہ ہماری اس خام خیالی نے اس ظالمانہ نظام کے پنجہ استبداد کی گرفت کو اور مضبوط کیا ہواہے۔ درحقیقت 95 فیصد نیک لوگ اس نظام کے دست و بازو ہیں اور ایک فیصد سے بھی کم ظالمانہ طبقہ نے اپنےظلم و استحصال کا ایک منظم نظام بنا رکھا ہے۔ اسی لیے اسلام میں ایک غیر مسلم عادل حکمران تو قا بل قبول ہے مگر ایک مسلم ظالم و جابر حکمران کی گنجائش نہیں۔ بحیثیت مجموعی ہمارا اجتماعی کردار کم ہمتی اور بد اخلاقی پر مبنی ہے۔ہم اپنے آپ سے اور اپنے خدا سے جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم اجتماعی طور پر جھوٹوں اور ظالموں کو سہارا دینے والے ان کے ساتھی ہیں ۔ لٰہذا دنیا ہمیں ہمارے مجموعی کردار سے جانتی ہے۔ ہم دھوکہ میں رہنے والے اور دھوکہ دینے والے ہیں۔اور یہی عذاب الٰہی کو دعوت دینے والی بات ہے۔