سزا اور معاشرتی اخلاقیات
ہمارے ہاں عوام کی اکثریت سزاؤں یا بالخصوص شرعی سزاؤں کو ہر مسئلے کا حل سمجھتی. ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سزا آخری مرحلہ ہے، اُس سے پہلے انسان
سزا اور معاشرتی اخلاقیات
تحریر: حارث عباسی، اسلام آباد
کسی بھی معاشرے میں جرائم کی کمی یا خاتمے کے لیے سزا کا قانون موجود ہے جس سے معاشرے میں امن قائم کرنے میں مدد حاصل کی جاتی ہے، ان میں سب سے بڑی سزا پھانسی کی سزا ہے۔
پھانسی کا فیصلہ درست ہے یا غلط، انسانی ہے یا غیر انسانی، یہ سب ایک طرف، آپ اگر پوچھیں کہ کیا اِس سے جرائم میں کمی آئے گی تو جواب یہ ہوگا! 'بالکل نہیں' کیوں؟ اسے سمجھنے کےلیے ہمیں جُرم یا گناہ کی پیدائش کوسمجھنا ہوگا.
گناہ تین درجوں میں پیدا ہوتا ہے.
پہلا درجہ محرومی ہے. یعنی آپ کو آپ کی بنیادی ضروریات کا مقررہ وقت اور مخصوص مقدار میں نہ مِلناہے۔خوراک انسان کی ضرورت ہے. جائز طریقہ کار سے ضرورت کے مطابق نہ ملے تو ظاہر ہے انسان چوری کرنے یا دیگر کسی بھی ناجائز طریقے سے اسے حاصل کرنے پر مجبور ہوگا۔ لباس انسان کی ضرورت ہے. چھت انسان کی ضرورت ہے. یہ باآسانی میسر نہیں ہوں گے تو انسان کسی بھی طرح انہیں حاصل کرنے پر مجبور ہوگا. یہ ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ پہلے درجے میں انسان کی اِن محرومیوں کا ازالہ کرے اوراس کے بنیادی حقوق فراہم کرے.
آج تیسری دُنیا میں ہونے والے زیادہ تر جرائم درحقیقت محرومیوں ہی کا نتیجہ ہیں.
دوسرا مرحلہ تربیت کا فقدان ہے. انسان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد اس کی تربیت کی ذمہ داری بھی ریاست کی ہے. اس کی شخصیت کو عمدہ اخلاق کا نمونہ بنانا ریاست کا کام ہے. تربیت بذاتِ خود ایک بنیادی ضرورت ہے لیکن اِس کا تعلق دیگر مادی ضروریات کے پورا ہونے سے ہے. ایک بھوکے شخص کا پہلے پیٹ بھرا جائے گا، پھر اُسے بتایا جائے گا کہ پیٹ بھرنے کا جائز طریقہ یہ ہے اور ناجائز یہ.
تیسرا درجہ سرکشی ہے. یعنی ریاست انسان کی تمام مادی (روٹی، کپڑا، مکان) و روحانی (تعلیم و تربیت) ضروریات کو پورا کرے لیکن اِس کے باوجود آپ گناہ پر آمادہ ہوں۔ یہاں ریاست سزا کا کانسیپٹ سامنے لاتی ہے کہ ہم تمہیں تمہاری ضرورت کا ہر سامان مہیا کریں اور تم پھر بھی سرکشی اور فساد کا باعث بنو تو یقیناً تم سخت سزا کے مستحق ہو.
دیگر تمام بنیادی ضرورتوں کی طرح بلوغت کے بعد عفت و پاکدامنی کے حصول کی خاطر کسی بھی مرد و عورت کاباہمی جائز تعلق انسان کی اہم ضرورت ہے۔ مغرب کے زیرِ تسلط ہم نے پکی عمروں میں شادی کا رواج تو اپنا لیا لیکن یہ بھول گئے کہ وہاں اوپن سیکس کا تصور ہے. وہاں کے دردناک جنسی زیادتیوں کےکیس بوجوہ سامنےنہیں آتے۔اب شاید کچھ لوگ "نکاح آسان بناؤ" کے بینر اٹھا کر باہر آجائیں تو بھئی! نکاح توتبھی آسان ہوگا ناں جب کوئی آپ کی، آپ کے بیوی بچوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی ضمانت لے گا۔ اور اگر ایسا ہو جائے پھر یہ ہی نہیں اور بھی بہت سے مسئلے خودبخود حل جائیں.
ہمارے ہاں عوام کی اکثریت سزاؤں بالخصوص شرعی سزاؤں کو ہر مسئلے کا حل سمجھتی ہے. ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سزا آخری مرحلہ ہے، اُس سے پہلے انسان کی بنیادی ضروریات کا پورا کیا جانا لازم ہے، وگرنہ کوئی بھی سزا کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو، کبھی مثبت نتائج پیدا نہیں کرے گی۔ انسان سوچتاہےکہ بھوکا مرنے سے بہتر ہے کہ وہ چوری کر کے اپنا پیٹ بھرلے۔بھلے اسے پھر ہاتھ ہی کٹواناپڑے۔