سماجی ترقی میں حائل کالونیل دور کا مرتب شدہ نظام تعلیم ؛ایک جائزہ
صالح و سامراج نظام تعلیم کا ایک مختصر موازنہ
سماجی ترقی میں حائل کالونیل دور کا مرتب شدہ نظام تعلیم ؛ایک جائزہ
ڈاکٹر اسامہ سعید۔ملتان
کیا پاکستان کے مدارس و سکول طلبہ کی تخلیقی کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہیں؟ اس کا جواب اعلیٰ تعلیمی کمیشن HEC کے سابق سربراہ کے بیان سے ملتا ہے کہ مروجہ تعلیمی نظام نہ تو اچھا طالب علم پیدا کرسکتا ہے اور نہ ہی اچھے شہری ۔رائج طریق تعلیم یہ ہے کہ مچھلی، ہاتھی اور بندر درخت پر چڑھنے کا مقابلہ کریں۔ پھر یہ توقع بھی رکھی جاتی ہے کہ اس مقابلے میں مچھلی کو اول آنا چاہیے کیوں کہ وہ ہمارے ماحول میں پیدا ہوئی اور اس کو مہنگے ترین سکول میں ڈالا ہے ۔کچھ اسی طرح کا برتاؤ بچوں کے ساتھ ہے، جیسا کہ جانوروں کے مذکورہ مقابلے میں دکھایا گیا ہے کہ سارا سال جانور کی خدمت کی جاتی ہے اور جب نتیجہ تسلی بخش نہیں ہوتا تو اس کو ریڑھی میں جوتنے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے یا اس کا مقدر قصائی کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے اور پھر نئے آنے والے کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
نظامِ تعلیم معاشرے کو نئی قیادت فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور جب نظامِ تعلیم یہ کردار ادا کرنے سے مفلوج ہوجائے تو افرادِمعاشرہ اجتماعیت کھو کربدامنی ،توہم پرستی جیسی کئی بیماریوں سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ حکمران کرپٹ، جاہل اور انتظامیہ دوسروں کی آلہ کار،عدالتیں ظلم کی نرسریاں بن جاتی ہیں، مذہبی رہنما حجروں تک محدود ہونے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
نظامِ تعلیم کا معروضی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے جوعلاقائی زبان میں ہونے کے ساتھ اس علاقے کا ثقافتی تشخص برقرار رکھنے کا ضامن ہوتا ہے۔جدید دور میں جاپان کا نظامِ تعلیم اس کی ایک مثال ہے جو جاپانی تشخص کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ ایجادات کا تسلسل رکھتا ہے۔ پاکستان کو ایک سوئی بھی ہمسایہ ملک چین بنا کر دیتا ہے۔چین کی ترقی کا ضامن بھی وہاں کا تعلیمی نظام ہے۔ یہی وَجہ ہے کوئی بھی انگلش یا دیگر زبانوں میں آنے والی کتاب کا ترجمہ مقامی زبان میں چینی اہل علم کو میسر آجا تا ہے۔
برصغیر پاک وہندو بنگلادیش میں تعلیمی نظام کی خوبی تھی کہ اس میں نہ تو عمر کی قید تھی اور نہ کوئی غیرضروری شرائط۔ہر استاذ کی اپنی سند ہوتی تھی۔اساتذہ صرف قابلِ اعتماد شا گردوں کو د یتے تھے۔شاگرد کی قابلیت معیار تھی جو استاد اور شاگرد کی بلند علمی استعداد کی گواہی دینے کے لیے کافی ہوتی تھی۔ یہی وَجہ ہے کہ موجودہ دور کی نسبت دورِعروج میں کم لوگ ہی سرکاری سندیافتہ ہوتے تھے۔علمی طورپر برعظیم اپنی شان دار علمی شناخت اور تاریخ رکھتاہے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک ہی تعلیمی ادارے کے تین بہترین شاگرد مجدد الف ثانی ،وزیراعظم نواب سعداللہ خان اور تاج محل و شاہی مسجد لاہور بنوانے والا انجینئر ایک ہی ادارے نے پیدا کیے۔ مزید معلومات ، ایک انگریز مورخ جوکہ پنجاب میں ماہر تعلیم کی حیثیت سے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے ان کی کتاب (جس کے تر جمہ کا عنوان)"پنجاب کا دیسی نظام تعلیم" سے لی جاسکتی ہیں۔ جس کا ایک سال قبل پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ نشرواشاعت نے ترجمہ کرکے اہل ذوق کی تشنگی کو دور کرنے کا کچھ سامان کیا ہے ۔
سوچنا یہ ہے کہ ہم 75 سال میں مؤثر نظامِ تعلیم دینے میں کیوں ناکام رہے ۔ اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ زوال کی طرف اس وَجہ سے گئے کیوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے تھے یا سائنس کو اپنایا نہیں۔ زوال میں اس بات کا کچھ اَثر تو ممکن ہے، مگر سارا کا سارا ملبہ سائنسی علم کے کاندھوں پر ڈال دیں، یہ تاریخ کے ساتھ ظلم ہوگا۔ ترقی یافتہ چین جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے،بہت سی ترقیات میں یورپ سے پیچھے ہے ،کمپیوٹرہارڈویئر اور سافٹ ویئر میں اس کے علاوہ کچھ علاقوں میں اب بھی کھیتی باڑی[ ایگریکلچر ] انتہائی روایتی انداز میں جانوروں کی مدد سےکی جاتی ہے۔لیکن قومی شعور کی بنا پر معاشی حکمت عملی ان کی ترقی کی ایک اہم وَجہ ہے اور اس کا نتیجہ بہترین نظامِ حکومت ہے۔
نیچرل سائنس سے غفلت برتنے کے اتنے شواہد نہیں ملتے، جتنے سوشل سائنسز سے بیگانگی اور مجرمانہ غفلت نظر آتی ہے ۔یہی وَجہ ہے کہ آزادی کے بعد بھی ہم شاہراہ ترقی پر گامزن نہیں ہیں ۔ہم نے سائنس تو اپنا لی ہے، مگر رسمی طور پر اور سماجی علوم سے کٹ کر رہ گئے ہیں،جہاں تک بات ہے ماضی میں سائنس کی تو ہندوستان میں کئی ایسے آلات موجود تھے جوکہ انگریزوں کو پہلے کبھی دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوئے تھے۔ ان میں سے کئی زراعت کا حصہ تھے اور بھی کئی ایجادات ایسی موجود تھیں، جن میں سے چند کے شواہد دھرم پال نے اپنی کتاب "انڈین سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ان ایٹین سنچری "میں دیے ہیں۔ یہاں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ انگریز کمپنی برصغیر میں سائنس اور ٹیکنالوجی لائی وہ بہ طور علم تو یہاں کچھ نہیں لائے، اس کا ثبوت میر ولایت حسین کی آپ بیتی علی گڑھ مسلم کالج کے تعلیمی نصاب کی گواہ ہے۔
اگر ذرا توجہ کی جائے تو اسی زمانے میں محقق علما کی ایک جماعت [جسے ولی اللہی جماعت بھی کہا جاتا ہے ] علمی ترقی کا نصاب تیار کرنے میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہی ہے۔ مثال کے طور پر مولانا ذوالفقار صاحب(مولانا محمود حسن شیخ الہند کے والد محترم) کی علم ریاضی کی پہلی اردو میں لکھی جانے والی کتاب جو کہ تحصیل الحساب کے نام سے 1850ءکی دہائی میں بریلی سے چھپی ہے ۔اس وقت حیدرآباد دکن کی یونیورسٹی جامعہ عثمانیہ علوم کو اردو میں منتقل کررہی تھی جوکہ نظام حیدرآباد نے بنوائی تھی۔
رہی بات ریل انجن اور سائنس کے تعلق کی تو یہ عظیم ایجاد استحصالی نقطہ نظر سے انتہائی بھاری سود پر برعظیم میں لائی گئی اور ملکہ برطانیہ کے ہندوستانی شہری اس میں بھی نسلی تفریق کا نشانہ بنتے رہے ۔طبقاتی تقسیم کایہ عالم تھا کہ فرسٹ کلاس میں صرف انگریز سفر کرسکتے تھے۔
نافذ تعلیمی نظام پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہ فروری 1835ء کا ایجوکیشن ایکٹ ہے جوکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے نافذ کیا گیا تھا ۔یہ وہ کمپنی ہے، جس کو ایڈم سمتھ(سرمایہ دارانہ نظام کا مؤسس) نے بھی اپنی مشہور تصنیف " ویلتھ آف نیشنز" میں ایک استحصالی کمپنی مانا ہے۔ پاکستان میں غلامی کے دور کا بنایا گیا فرسودہ تعلیمی نظام رائج ہے اور مرعوب ذہنیت اس بات پر مصر ہےکہ سامراجی نظامِ تعلیم کو اس بات کا کریڈٹ دیا جائے کہ جدیدعلوم اسی کے مرہون منت ہیں۔ حال آں کہ اس نظام نے غلام اور مفادپرست ذہنیت کے علاوہ اس ملک کو کچھ نہیں دیا۔
جس زمانے میں یہ نظامِ تعلیم آیا، اس کے تقریباً 30 سال بعد انگلینڈ کے تعلیمی نظام میں نیچرل سائنس کو شامل کیا گیا۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ برصغیر کو کون سا نظامِ تعلیم دیا گیا۔ 1860ء کی دہائی میں جب لارڈ ٹانٹون نے تعلیم میں سائنس کا اضافہ کی تجویز دی تو کتنے عرصے بعد ایک غلام ملک کو آقا کی طرف سے یہ سہولت میسر آئی ہوگی،اس کا اندازہ آپ بہ خوبی لگا سکتے ہیں۔ چند سال بعد اس نظامِ تعلیم کو 200 سال ہو جائیں گے اس سے نکلنے والا طالب علم بالعموم غلام ذہنیت کا ہوتا ہے جوکہ ماضی میں رہنے کا عادی ہے۔ جب کہ حساس طالب علم اس تعلیمی نظام کی زد میں آکر اس کو برداشت نہیں کر پاتے۔
1857ءسے پہلے ملک پر کمپنی کا راج تھا ، 1857ءکی جنگ آزادی کے نتیجہ میں برطانیہ نے 1858ء میں باقاعدہ حکومت شروع کی۔ اس کا نظامِ تعلیم بر طانوی صنعتی دور کا بھی نہیں، اسی بات کو آج سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔یہ وہ دور تھا جب انگریزوں کے ظلم واستبداد کے نظام کی وَجہ سے عوام میں انگریزی کے خلاف جذبات اُبھرنے لگے اور یہ تاثر اُبھارا گیا کہ کچھ طبقات جدید علوم کی مخالفت کر رہے ہیں اور یوں دوسرا طبقہ وجود میں لایا گیا، جس نے سامراجی ظلم و استبداد سے توجہ ہٹا کر ساری قوتیں انگریز وفاداری کی طرف مبذول کردیں اور کلرکی کی ملازمت کو بہ طور آب حیات پیش کیا۔بہ ظاہر یہ دونوں ایک دوسرےکے مخالف تھے، مگر دونوں کا نتیجہ سامراجی طاقتوں کے حق میں نکلا ، یہی وَجہ تھی عوام الناس میں انگریزی دور میں خوب پروپیگنڈا کیا گیا کہ اسلام سائنس مخالف مذہب ہے ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ولی اللہی جماعت، ہمیشہ تعلیم و تربیت کے جامع تصور کی نمائندگی کرتی رہی ہے۔ جس نے ہردور کے تقاضوں کے تحت سامراجی چالوں کےنتائج کو سمجھ کر اس کے تدارک کی حکمت عملی تشکیل دی اور ملک و ملت کو انتشار سے نکال کر درست سمت کی جانب گامزن کیا ۔وقتی مسائل میں اُلجھنے کے بجائے، آج بھی یہی ولی اللہی جماعت اسی راہِ اعتدال پر نوجوانوں کی ذہن سازی کررہی ہے۔قومی نظامِ تعلیم کے قیام کا پہلا مرحلہ کالونیل دور کی ذہنیت سے سماجی آزادی ہے۔ اگلے مرحلے میں قومی تقاضوں سے ہم آہنگ، جدید ترقی یافتہ نظام کی تشکیل ممکن ہوسکے گی۔ وہ دن دور نہیں، جب تربیت یافتہ نوجوان نسل کی جدوجہد سے پاکستان دنیا کی باوقار قوموں میں شامل ہوگا۔