کیا ہم تعلیم یافتہ ہیں؟
ہمارے معاشرے میں دی جانے والی تعلیم اور اس کے ناقص نتائج۔۔
کیا ہم تعلیم یافتہ ہیں ؟
تحریر سعد اللہ مری بلوچ، سبی بلوچستان
انسان کو اس دنیا میں کچھ کرنے سے پہلے اس کے بارےمیں صحیح علم حاصل کرنا ضروری ہے اور پھر یہ بھی کافی نہیں، جب تک اس علم کے مطابق عمل نہ کرے۔ علم تو درجہ کمال کا ہو، لیکن عمل سے عاری ہو، تو شیخ سعدی ؒ نے اس معاشرے کے تعلیم یافتہ طبقے کی حقیقت کو اپنے اس شعر میں واضح کیا ؎
علم چند آ نکہ بیشتر خوانی چوعمل درتو نیست نادانی
علم جتنا بھی تو زیادہ پڑھ لے گا جب اس پر عمل نہیں ہے توتو کچھ بھی نہیں جانتا
اگر ہم ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچیں توہمارا پڑھا لکھا طبقہ بہ حیثیت قوم اس آم کے درخت کے مانند ہے، جس کو فروٹ لگنے کی کوئی اُمید نہ ہو۔سب سے پہلے تو علم دوستی کا اندازہ ہمارے سالانہ بجٹ ہی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماشاءاللہ ہم تعلیم سے کتنا پیار کرتے ہیں کہ پورے ملک کا تعلیمی بجٹ بیوروکریٹس کے مجموعی معاوضے سے کم ہے؟ پھر پتہ نہیں کہ کون سے منگول ہم پر حملہ آ ور ہونے والے ہیں کہ تعلیم بےچاری گن کے سامنے بھی ہیچ نظر آ تی ہے ۔
ہمارے حکمران اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ چائنا، ایران ،بنگلادیش تعلیم کی مد میں ہم سے کہیں زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں- اس وقت اتنے تعلیمی ادارے اور تعلیم یافتہ لوگوں کے باجود خاص کر میرے قبیلے کے لوگ اور مجموعی طورپر پوری قوم بے ملاح کشتی کی طرح پانی میں تیر رہی ہے۔ بارش تو اللہ کی رحمت ہے،مگر ہماری بدانتظامی اور غیرذمہ دارانہ رویہ اسے زحمت میں بدل دیتا ہے اس سےہمارے پڑھے لکھے طبقے کا کیا قصور ہے، باقی رہی یہ بات کہ عوام تو درحقیقت پانی میں نہیں اپنے گناہوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ہمارے عصری اور مذہبی تعلیم یافتہ طبقے تو بے چارے لولے لنگڑے جہازوں کے ذریعے کیمرہ سمیت ہمزاد کی طرح ہرجگہ حاضر و ناظر ہیں ۔وقت پر نہ پہنچنے کی وَجہ خستہ حال روڈز کی ہے۔ چوں کہ ہمارے انجنیئرز اور ٹھیکے داروں نے عوامی سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے روڑز لُک اور پتھر سے نہیں، بلکہ باہر ملک سے منگوا کرایک خاص قسم کے کاغذ سے بنائے ہیں ۔بلوچستان کے پھنسے ہوئے تو تمام لوگ وزیراعظم کے تعاون سے اپنی مدد آپ ریسکیو ہوئے۔ ہاں البتہ صرف ایک بات ہمارے منہ پر چھوٹا سا طمانچہ ہے کہ تین چار لاشیں تین دن تک وطن عزیز کے مشہور دریا میں تیر تی رہیں وہ بھی اس لیے کہ حدود کا تعین نہیں تھا۔
جلد بازی میں ہرکام کر نا جاہلوں کا کام ہے۔ ہم تو ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں CSSکرچکے ہیں۔ مجال ہے کہ بغیر تعین کے، کسی کی حدود میں بغیر پیسہ، کسی کو گرفتار کریں ۔چلو دیکھتے ہیں کہ ۔ من احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا(جس نے زندہ رکھا ایک جان کوتو گویا زندہ کردیا سب لوگوں کو) رٹنے والوں نے اس کھیل میں کتنا حصہ لیا اکثر کا تو مجھے نہیں پتہ کچھ جگہوں سے یہ اطلاع ملی کہ تم نے بڑی غلطی کی ،او خدا کے بندو ہسپتال کیوں آ ئے ہو ڈاکٹر تو سارے آپ کی خدمت کے لیے وہاں تشریف لا رہے تھے ،کیوں کہ ہمیں تو اساتذہ نے مشکل وقت میں چین سے بیٹھنے کو منع کیاہواہے ۔ سوچا یار اس طرح لکھنے سے میں کہیں غیبت کا مرتکب نہ ہوجاؤں چوں کہ میں نے نہ توPHDکی اور نہ ہی CSS ،مجھے کیا حق پہنچتا ہے اہل علم کے بارے میں رائے قائم کرنے کا۔
قومی لحاظ سے وہ لمحہ ہمارے لیے کتناشرمناک تھا جب ایک شخص قرآن کریم کو ہاتھ میں لیے ہوئے اپنے معصوموں کو بچانے کی اپیل کرر ہا تھا۔ اسی طرح ہم نے ایٹم بم تو بنالیا، پراس جدید اور قیمتی علم کے ذریعے بجلی بنانے سے قاصر رہے ۔ جہاں تک فلاحی تنظیموں کاتعلق ہے توان کا تو فنڈ کورونا ہڑپ کر گیا، البتہ کیمرہ بہت سمجھ دار ہےوہ بہت کچھ نادیدہ چیزیں دکھانے کی صلاحیت رکھتاہے۔
قصور ویسے بھی آ نکھوں کا ہوتا ہے ، سورج کا نہیں۔لہٰذا قوم جانے اور قوم کا خدا
ہم تو تعلیم یافتہ ہیں ۔