قدرتی آفات سے بچاؤ کی خدا داد ویکسین - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • قدرتی آفات سے بچاؤ کی خدا داد ویکسین

    قَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ ترجمہ: "(میں ایمان لایا) اچھی اور بری تقدیر کے اللہ کی طرف سے ہونے پر..‘‘

    By یاسر عرفات Published on Aug 31, 2022 Views 939
    قدرتی آفات سے بچاؤ کی خدا داد ویکسین
    یاسر عرفات۔ ملتان 

    عالمی ادارہ صحت (World Health Organization) کے مطابق vaccination ایسا سادہ اور مؤثر عمل ہے، جس میں بیمار ہونے سے پہلے ہی متعلقہ بیماری کے خلاف مزاحمت بڑھا کر بیمار ہونے سے بچا جاسکتا ہے۔اس عمل میں مطلوبہ ویکسین کے ذریعے جسم کے مدافعتی نظام کو متوقع بیماری کے خلاف مزاحمتی ٹریننگ (Training) دے کر مؤثر بنا دیا جاتا ہے۔ گویا جسم میں یہ ٹریننگ ویکسین کرواتی ہے۔
    اسی اصول کو پیش نظر رکھ کر جب ہم موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سیلاب کوئی اِنفرادی بیماری نہیں ہے، بلکہ پانی کا ایسا ظالم بہاؤ ہے جو خشک زمین کا رُخ کرتا ہے تو اپنے راستے میں آنے والے سکولوں، دکانوں، ہسپتالوں،تھانوں،زرعی زمینوں اور علاقہ مکینوں کا نظام درہم برہم کرکے رکھ دیتا ہے۔کئی لاشیں ایسی ملتی ہیں جن کی شناخت ہی نہیں ہوپاتی۔ گویا جو پانی (H2O) ایک وقت میں انسانوں،حیوانات اور نباتات (زراعت) کی حیات کی بنیادی وَجہ ہے، جب سیلاب کی شکل اختیار کرے تو ان تینوں انواع کی جان لینے کے دَر پے ہوتا ہے۔ کیا پانی کی فطرت میں کوئی تضاد (یا مسخ شدہ) ہے کہ بے اختیار کبھی فائدہ تو کبھی نقصان دے رہا ہے؟ ہر عاقل شخص جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
    درحقیقت اس پانی کے خالق نے باقی تمام مخلوقات کی طرح پانی کی تقدیر میں خیر اور شر کے دونوں پہلو رکھے ہیں۔ قَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔ "(میں ایمان لایا) اچھی اور بری تقدیر پہ اللہ کی طرف سے ہونے پر..‘‘
    یہاں تقدیر کی بات آئی ہے تو ہمیں اس طرز پر سوچنا چاہیے کہ اگر خدا تعالیٰ نے نفع اور نقصان دینے کی دونوں صلاحیتیں پانی میں رکھی ہیں تو کیا پانی کو فیصلہ کرنے کا اختیار بھی دیا ہے کہ وہ جب چاہے فائدہ دے اور جب چاہے نقصان دے؟ کیا پودوں (زرعی زمینوں) کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے فیصلے سے جب چاہیں انسانی معاشرے کو فائدہ دیں اور جب چاہیں نقصان؟ کیا پالتو چوپایوں اور جنگلی جانوروں میں یہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے کہ وہ اپنی فطری ساخت میں موجود انسانوں کو فائدہ یا نقصان پہنچانے والی حس کو بدل کر اپنا مقصدِ حیات خود طے کر سکیں؟اس طرز پر دیکھا جائے تو نفع یا نقصان کے بارے میں فیصلہ کرنے کا جو اختیار انسان کو حاصل ہے وہ اس کے علاوہ کسی اَور مخلوق میں نظر نہیں آتا۔ حتی کہ فرشتوں میں بھی نہیں۔ گویا تقدیر پہ ایمان کا ایک بنیادی تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اپنے فیصلہ کرنے کی اس خداداد صلاحیت کو مانے، جس کے تحت انسان ایک عمل کرتاہے اور اس کے مطابق نفع یا نقصان اُٹھاتا ہے۔
    خلقتِ انسان کی یہ خداداد صلاحیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ مخلوق دیگر مخلوقات یعنی جمادات، نباتات اور حیوانات کے نظام کو اپنے تابع کر کے جنگل کی "آگ"، طوفان کی "ہوا"، سیلاب کے "پانی" اور "مٹی" سے بنے شیطانوں (شیاطین اَلاِنس) کے خلاف انسانی معاشرے کا فطری مدافعتی نظام مضبوط بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔(بالکل اسی طرح جیسے ویکسین جسم کے انفیکشن کے خلاف)۔ بے شک مظاہرِ قدرت کو پیدا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کی ہے، اور انسان کی تعیناتی اس دنیا میں بہ طور نائب کے ذاتِ باری تعالیٰ نے کی ہے، لیکن یہ مخلوق اگر فیصلہ کرنے کی اس خدا داد صلاحیت کو استعمال میں لائےگی تو ہی خدا تعالیٰ کے دیے گئے اس منصب پر قائم رہ سکے گی۔ ورنہ چوپائےبھی ذاتی تکلیف کو کم کرنے کے لیے ہِلتے جُلتے رہتے ہیں۔ خدا کے نائب ہونے کا اِظہار اس عمل سے ہوگا کہ جو انسان مخلص ہیں وہ اپنے اندر عدل کا خُلق پیدا کریں، یعنی وہ مشکل حالات میں بھی توازن اور اعتدال کے رویے کے حامل رہیں۔ ان میں ٹوٹے ہوئے معاشرے کو جوڑنے کی عملی صلاحیت پیدا ہو۔ وہ اپنے ذاتی نفع نقصان کی سوچ سے اوپر اٹھیں اور معاشرے کے اجتماعی مفاد اور اجتماعی نقصان کا ادراک کریں۔ وہ اپنی قوم کے سیاسی و معاشرتی حالات، وسائل اور صلاحیتوں سے باخبر رہیں۔ اور وہ اپنی قوم میں وقوع پذیر ہونے والے مسائل کے پسِ منظر اور پیش منظر سے اچھی آگہی اور چھان بین رکھیں۔
     تمام انسانیت ایک جسدِ واحد کی طرح ہے۔جسم کے ایک حصے کو اگر تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے حصے میں بھی درد کے اَثرات پہنچتے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ گھرانوں کے لیے پوری قوم پریشان ہے۔ تکلیف میں صرف سیلاب زدگان ہی نہیں پوری کی پوری قوم ہے۔گوکہ سیلاب زدگان کی تکلیف سب سے زیادہ ہے،کھانے،پینے،سونے اور رہنے سے تنگ ہیں۔
     یہ بدحالی سماجی انفیکشنز کا تسلسل ہے۔بلوچستان کے جنگل میں آگ، ٹمبرمافیاز اور کالونی مافیاز کی دھونس دھاندلی،من مانی سفارت کاری کے نتیجے میں جنگ اور سیلاب کا خوف، ذخیرہ اندوزی کے نتیجے میں مہنگائی اور بھوک افلاس، معاشی طبقاتیت کے نتیجے میں اجنبیت وغیرہ وغیرہ۔ ایسے سماجی انفیکشنز کے علاج کے لیے پورے معاشرے کو سماجی ویکسین کی ضرورت ہے، جس طرح ویکسین جسم کے مدافعتی نظام میں اینٹی باڈیز کو ٹریننگ دے کر انفیکشن کے خلاف مزاحمت کو مضبوط کرتی ہے، اسی طرح معاشرے میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو مسائل سے لڑتے نوجوانوں کی اِنفرادی کاوشوں کو منظم کر کے اجتماعی شکل دے،تاکہ ان کی مزاحمت میں مضبوطی آئےاور معاشرتی مسائل حل ہوں۔
    معاشرے میں ایسی منظم جماعت ہونا لازم ہے جو شرپسند عناصر کے طریقہ واردات کا شعور رکھتی ہو اور اپنی تجزیاتی صلاحیت معاشرے میں منتقل کرنے کی اہل ہو۔ یہ منظم جماعت بہادری اور جرأت کے ساتھ ظالمانہ عناصر کی نشان دہی کرے اور معاشرے سے خوف کا خاتمہ کرے۔ اس جماعت کو اپنے جان و مال سے زیادہ معاشرے کی بقا اور آبرو کی فکر ہو۔ ایسی جماعت جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی عادلانہ قیادت پیدا کر سکے۔ ایسی جماعت جو اللہ کے بنائے ہوئے خیر اور شر کے نظام پر ایمان لانے کے نتیجے میں شعوری بنیادوں پر قدرتی آفات اور معاشرتی بیماریوں کا ازالہ کرے گی وہی سیلاب کی خدا داد ویکسین ہوگی۔
    Share via Whatsapp