سبی کی پہچان - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سبی کی پہچان

    قلعہ میر چاکر ایک تاریخی قلعہ ہے

    By Ghulam Muhammad marri Published on Sep 03, 2022 Views 831
    سبی کی پہچان 
    تحریر: غلام محمد مری آزاد، سبی بلوچستان

    "سبی"، صوبہ بلوچستان کا ایک شہر ہے اور ضلعی صدر مقام ہے۔ اس کو ضلع کا درجہ 1903ء میں ملا۔ 1974ء میں ضلع نصیرآباد اور ضلع کوہلو اور  1983ء میں ڈیرہ بگٹی اور1986ء میں ضلع زیارت بنانے کے لیے اس کو تقسیم کیا گیا۔سبی،پاکستان کا گرم ترین علاقہ ہے، جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے بھی اوپر چلا جاتا ہے۔سبی کا پرانا نام "سیوی "ہے جو بعد میں "سبی" پڑگیا۔ 
    سبی کو بلوچستان میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔جیوگرافی کے لحاظ سے یہ ایک میدانی علاقہ ہے، مگر یہ چاروں طرف پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس کی آبادی تقریباً ساڑھے تین یا چار لاکھ کے قریب ہے ۔سبی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دنیا کی قدیم تہذیب مہرگڑھ کے آثار بھی اسی علاقےمیں ہیں۔ سبی شہر دریائے ناڑی کے کنارے واقع ہے۔ 
    سبی میں ایک پرانا قلعہ بھی ہے، جسے سردار چاکر خان رند نے بنایا تھا۔ اس کی طرزِتعمیر کو دیکھ کر انسانی دماغ ششدر رہ جاتا ہے کہ اس کے فن تعمیر میں اس دور کے جدید تقاضوں کو پورا کیا گیا تھا۔ یہ قلعہ بلوچستان میں تاج میں نگینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ویسے تو میرچاکر نے یہاں تین بڑے قلعے تعمیر کروائے تھے،جن میں سے ایک سوران، دوسرا بھاگ کے قریب گدڑ کے مقام پر اور تیسرا ضلع سبی میں ہے۔ باقی دونوں قلعے حکومتوں کی نااہلی کی وَجہ سے سیلاب اور زلزلوں کی زد میں آ کر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں، مگر قلعہ میرچاکر (سبی) کے آثار ابھی تک موجود ہیں، مگر اَب یہ بھی قریبِ مسمار ہے۔ یہ قلعہ شہر کے مغربی جانب ہرنائی پھاٹک سے بہ جانب شمال تھوڑی سی دوری پر واقع ہے۔ اس قلعہ کو شاہ بیگ ارغون نے سن 1511ء میں فتح کیا جو کہ پہلے سلطان پیرولی برلاس کی اولاد کے قبضہ میں تھا۔
    اس قلعے کا مرکزی دروازہ جنوب کی جانب ہے۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی دو بڑے برج ہیں۔ پہلا برج جوکہ ایک ہی درجے پر ختم ہوتا ہے،یہاں فوجی فروکش ہوا کرتے تھے۔ اس برج کے ساتھ گندم کے دو گودام ہیں، جن میں سے ایک کی لمبائی 80 اور دوسرے کی لمبائی 70 فٹ کے قریب ہے اور ان دونوں کی کشادگی 30 فٹ ہے،اس کے ساتھ ایک چھوٹا دروازہ موجود ہے جو اناج نکالنے کے لیے استعمال ہوتا تھا،یہ پختہ اینٹوں سے بنائے ہوئے ہیں اور دوسرے برج کے دائیں جانب چند سیڑھیاں ہیں،یہ بھی مورچے کی طرز پر ہے۔ اس پر سے اگر دیکھا جائے تو سبی شہر کا نظارہ ہوتا ہے۔ قلعہ کےاندر ایک لائن میں کمرے بنے ہوئے ہیں جوکہ اَب بوسیدہ ہوچکے ہیں، جوکہ شاید دھپال قوم نے بغرض رہائش تعمیر کیے تھے۔ قلعہ کے آنگن میں ایک باغ بھی تھا جو اَب اُجڑ چکا ہے۔ چاروں طرف پھیلی بلند و بالا فصیل اور اس کے ہیبت ناک برج ناقری کے با عالم گریہ میں ہیں۔
    سیوی (سبی) قلعے کے دوسرے کونے پر بھی ویسا ہی برج موجود ہے۔ اس کے ساتھ کمروں کے آثار بھی ملتے ہیں، ان کمروں کی دیواریں خوب چوڑی اور دروازے نہایت ہی مضبوط ہیں۔ کمروں کی چھتیں گرنے کے قریب ہیں۔ کمروں کی یہ قطار قلعے کے تیسرے کونے تک چلی گئی ہیں۔ کئی نجی رہائش گاہیں موجود تھیں۔ سبی پندرویں صدی عیسوی سے قبل سندھ میں شامل تھا، لیکن شاہ بیگ ارغون افغانی کے حملہ کے بعد افغان علاقے میں شامل ہوا، جس کو کلہوڑا حکمرانوں نے 1714ء میں جنگ کے بعد واپس لیا، پھر درانی افغانوں نے اُن سے چھین لیا اور 1880ء میں انگریز برطانیہ کے زیر تسلط آگیا۔ اس قلعے کی مغربی فصیل کے اندرونی جانب افغان حملہ آور شاہ بیگ ارغون کی نجی رہائش گاہ واقع تھی، اس کی حفاظت کے لیے دو چھوٹی چوکیاں بنائی گئی تھیں۔ نزدیک ایک تہ خانے کے نشانات بھی ملتے ہیں۔ اس تہ خانے سے زیر زمین ایک راستہ شمالی چوکی کو جاتا تھا۔ ایک پرانی مسجد کے آثار بھی موجود ہیں جو شہید ہوچکی۔ مسجد کے ساتھ کئی حجروں کے کھنڈر نظر آتے ہیں۔ فصیل کے آخری کونے میں منہدم دیواریں ایک وسیع اصطبل کی ہیں،جہاں اعلیٰ نسل کے اسپ تازی(گھوڑے) رکھے جاتے تھے۔فصیل کے ساتھ ساتھ آگے جائیں تو آخری برج پر پہنچ جائیں گے۔ یہ برج دوسرے برجوں کے مقابلے میں قدرے چھوٹا ہے۔ ساتھ ہی سیڑھیاں ہیں ان پر چڑھیں تو فصیل پہ پہنچ جائیں گے۔ فصیل کے ساتھ کئی کمرے نظر آئیں گے۔ بارش اور طوفانوں کی وَجہ سے اَب یہ اپنی اصل شکل و صورت کھو چکے۔ آپ قلعہ کی فصیل پر چڑھتے جائیں تو دروازے پر پہنچ جائیں گے۔ قلعے کے درمیان چند سیدھی دیواریں منہدم حالت میں ملتی ہیں۔ ہوسکتا ہے اس زمانے میں ان پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہو۔ قلعے کے تینوں جانب فصیل کے کئی نشانات موجود ہیں۔ قدیم زمانے میں فصیل یا دیواریں دفاع کے مقبول ترین انداز تھے۔ اس فصیل کے آثار خجک روڈ کے ساتھ ساتھ تقریبًا ملتے ہیں اور فصیل 8 سے 10 فٹ چوڑی ہے۔
    قلعہ کے سامنے ایک چھوٹا شہر بسا کرتا تھا جوکہ لوگ دور دراز سے آتے اور یہاں مختلف اشیا کی خریداری ہوتی تھی،شہر کی دکانوں میں قاہرہ اور دمشق کا اسلحہ بھی درآمد ہوا کرتا تھا۔ ایک جانب مویشی منڈی لگتی تھی اور دوسری طرف سبی میلہ کا انعقاد ہوا کرتا تھا، جوکہ ہر سال ہوتا رہتا ہے۔ یاد رہے کہ رند و لاشار کی تیس سالہ جنگ کا موجب بھی اسی میلے میں میرچاکر کے بیٹے ریحان اور گہرام خان کے بیٹے رامین کا گھڑدوڑ میں مقابلہ تھا، جو بعدازاں بلوچ قوم کی پامالی کی وَجہ بنا۔ میرچاکر نے سن1565ء میں وفات پائی اور ان کی قبر اوکاڑہ کے قریب دریائے راوی کے کنارے ستگھرہ نامی گاؤں میں واقع ہے۔
    برطانوی دور1880ءکے بعد سبی شہر کو نئے طرز پر بنایا گیا۔ برطانوی عمل دار موسم سرما میں اپنا کیمپ آفس کوئٹہ سے منتقل کرکے سبی شہر میں قائم کرتے تھے۔ سبی اتنا قدیم، تاریخی اور ایسے راستے پر موجود ہے جو سندھ اور بلوچستان کا قدیمی تاریخی راستہ رہا ہے۔ افغانستان سے افغان جنگجو اسی راستے پر آکر سندھ پر حملہ آور ہوتے تھے، سندھ کے تاریخی شہر شکارپور میں سبی کے نام پر سوی در نام سے گیٹ ہوتا تھا اور آج شہر میں سوی در نام سے ایک محلہ آباد ہے۔ سکھر سے لے کر کوئٹہ تک موجود شاہراہ پر شکارپور،جیکب آباد، ڈیرہ مرادجمالی، سبی، ڈھاڈر،کولپور اور کوئٹہ جیسے قدیم تاریخی شہر آباد ہیں۔ یہی راستہ آگے چمن سے ہوتا ہوا افغانستان کے شہر قندھار تک جاتا ہے۔ اسی راستے کے متوازی برطانیہ نے اپنے فوجی قبضے کو برقرار رکھنے اور فوجی اسلحے کی جلد ترسیل کے لیے سکھر سے چمن تک ریلوے لائن بھی  1884ء میں ڈالی جو کہ تھوڑے عرصے میں مکمل کی گئی۔
    مختصراً یہ کہ، آج سبی بلوچستان کا ایک اہم اور مرکزی شہر ہے،جس میں بلوچ، پختوں اور سندھی بولنے والے قبائل پرامن طور پر رہتے ہیں، کاروباری مرکز اور کچھ زرعی اراضی بھی ہے، جہاں موسم کے مطابق زرعی اجناس بھی ہوتی ہیں۔ شہر میں بچوں اور بچیوں کے لیے کالجز کے علاوہ دیگر کافی تعلیمی ادارے بھی ہیں، جس کی وَجہ سے شہری آبادی میں تعلیم عام اور سماجی و مذہبی رواداری عام ہے۔
    Share via Whatsapp