یورپی علوم کا تاریخی تسلسل
. یورپ کی ترقیات قرطبہ کی مسلم دو ر کی یونیورسٹیوں کا نتیجہ ہے مگر یورپ کی ترقیات کا رشتہ 2 ہزار سال پیچھے جوڑ دینا علمی خیانت کے مترادف ہے
یورپی علوم کا تاریخی تسلسل
محمد بشیر عارفی ۔عارف والا
علم تمام انسانیت کی میراث ہوتا ہے۔اس پر اجارہ داری کو "برھمن ازم" سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یونانیوں نے بہت سارے علوم کی بنیاد رکھی اور اپنے دور کے عقلی و فلسفیانہ سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کی۔حقائق کو معلوم کرنے ان کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کی۔یونانیوں کا تحقیقی و علمی کام کا دور عام طور معلوم تاریخ کے مطابق 400 قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی تشریف آوری سے 400 سال پہلے لوگوں کے ذہنوں میں جو مظاہر قدرت کے متعلق، خود انسان کے متعلق، زندگی کی ابتدا کے متعلق، خدا کے متعلق اور اختتام کائنات کے متعلق مختلف قسم کے سوالات پیدا ہوے ان کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔
جیسا کہ ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی نبی علیہ السلام تشریف لائے، ان کی آمد سے پہلے قدرت نے ایک ماحول پیدا کیا، جس میں ان علوم انبیا کی ضرورت محسوس ہونے لگی، اور لوگوں کے ذہن حل طلب مسائل کی طرف متوجہ ہو گئے۔
پھر انبیا علیہم السلام تشریف لاتے ہیں اس دورکے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیتے ہیں۔ذہنی انتشار دور ہوتا ہے، انسان عقلی و علمی تکمیل کی طرف بڑھتا ہے اور انسانیت کی ترقی میں حائل رکاوٹیں دور ہوتی ہیں اور انسانیت ترقی کے اگلے فیز میں داخل ہو جاتی ہے۔
انبیاء علیہم السلام نے اپنے اپنے ادوار میں ماضی کے تسلسل کی روشنی اور حال و مستقبل کے طبعی و فطری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانیت کے ارتقا کو جاری رکھا۔
ہر پہلے نبی علیہ السلام نے اگلے دور کی ترقیات کے لیے انسانیت کی رہنمائی کی، یہاں تک کہ خاتم الانبیا حضرت محمدﷺ تشریف لائے اور اس دور کی بڑی بڑی رکاوٹوں کو دور کیا، جن کو مالی اجارہ داری اور علمی اجارہ داری اور سیاسی جبر کہا جاتا ہے، کو ختم کیا۔
یہاں تک کہ آخری رسول حضرت محمدﷺ تشریف لائے اور ضروری علوم کو انسانیت عامہ کے لیے عام کر دیا۔
یہ عمل خلافت راشدہ اور بعد میں آنے والی خلافتوں میں جاری رہا۔ بالخصوص خلافت بنوعباس کے دور میں جب فتوحات کا سلسلہ مکمل ہوا، اور سماجی تعمیر وترقی کے لیے ذہنی وسعتوں اور تجربات کی ضرورت محسوس کی گئی تو اپنی علمی نوعیتوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام کے علوم و فنون سے بھی استفادہ کی حکمتِ عملی مرتب کی گئی اور یورپ کے فلسفہ اور سائنسی علوم کا بھی فارسی اور عربی ترجمہ کیا گیا۔ یورپ کے تمام علوم کی بنیاد مادیت پر قائم تھی۔یورپ حضرت عیسی علیہ السلام کے علوم سے آگاہ ہونے کے باوجود حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کو اپنی علمی بنیاد نہیں بنا سکا، بلکہ اپنی علمی بنیاد 4 سو سال قبل مسیح سے شروع کرتا ہے اور پھر اٹھارویں صدی سے ڈائریکٹ تعلق جوڑتا ہے ، اس طرح 2 ہزار سالہ علوم کا انکار کرتا ہے۔یورپ کے مادیت پر مبنی علوم دراصل مفاداتی و طبقاتی نتائج پیدا کرتے ہیں اور علوم انبیا کی ضد ہیں۔ یہی وَجہ کہ یورپ کا فلسفی ابھی تک بنیادی سوالات میں پھنسا ہوا ہے، اور مجموعی انسانی زندگی کے حقائق اور تقاضوں کو پس پشت ڈالے ہوئے ہے، دور جدید کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو ان کا تسلی بخش حل ان کے علوم و افکار میں نہیں ملتا ہے۔ جب کہ اس کی کامل و مکمل رہنمائی اسلام کے جدید فلاسفہ کی تعلیمات میں موجود ہے۔ان میں حضرت امام غزالی رح ، حضرت محی الدین ابن عربی رح حضرت مجدد الف ثانی رح اور امام شاہ ولی اللہ رح ممتازمفکرین ہیں۔
اگر یورپی تعلیم یافتہ یا یورپ زدہ تعلیم یافتہ اگر اپنے تعصب کی عینک اتار کر مذکورہ بالا فلسفیوں کا مطالعہ کرے تو یورپ کی فلسفیانہ بحثیں بچگانہ محسوس ہونے لگیں گی۔ اس کی وَجہ دراصل 2 ہزار سالہ انسانی ترقیات کا انکار اٹھارویں صدی میں بیٹھ کر جب 2 ہزار پیچھے تعلق جوڑا جائے اور پھر یہ کہا جائے ہمیں پچھلے علوم پر اعتبار نہیں اور یہ علوم بے فائدہ ہیں۔اس کے پیچھے انسانیت دشمن عناصر کی گھناؤنی سازش ہے۔اس سازش کو بے نقاب کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ یورپ کی ترقیات قرطبہ کی مسلم دور کی یونیورسٹیوں کی علمی و فکری کاوشوں کا نتیجہ ہے، مگر یورپ کی ترقیات کا رشتہ 2 ہزار سال پیچھے جوڑ دینا علمی خیانت کے مترادف ہے۔یورپ کی اس علمی تاریخ کی تربیت کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ تمام تر سازش اپنے مفادات کے تحفظ اور مادیت پرستی کا جواز پیدا کرنے کے لیے کی گئی۔اپنی اس مادیت پرستی کے لیے جو انسانیت کا بہیمانہ قتل عام کیا تھا، اس کا جواز پیدا کرنا ہے۔آج ہمیں اپنے نوجوان کو درست علمی بنیاد سمجھا کرکے یورپ کی مرعوبیت سے نکالنا چاہیے۔اس طریقہ سے نا صرف مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، بلکہ ترقی کا سفر بھی آسان ہو جائے گا۔