مروجہ نظام کا جائزہ
ضرورت اس امر کی ہے کہ لٹیروں کی پارٹیوں کو رد کر کے نظام کو سمجھایا جاۓ،سمجھنے کے بعد ایک عادلانہ نظام کو لانے کی جدوجہد کی جاۓ ۔
مروجہ نظام کا جائزہ
اعتدال حسین شاہ چھتر پلین۔مانسہرہ
نظام تین بنیادی عناصر مقننہ،انتظامیہ اورعدلیہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ریاست کو چلانے والے یہ تین ادارے ہیں، جن کے بل بوتے پر ریاست چل رہی ہوتی ہے۔اگر یہ ادارے انسان دوستی کے نظریے پر کام کر رہےہوں تو پھر ہر انسان کو اس کے بنیادی حقوق میسر رہتے ہیں۔اگر نظام طبقاتی فکر پر قائم ہو تو سماج کا عام انسان اپنی زندگی سے بے زار نظر آئےگا اور اسے اس کے بنیادی حقوق نہیں ملیں گے۔کیوں کہ جو نظام استحصالی فکر پر مبنی ہوتا ہے تو اس سے چند لوگوں یا چند خاندانوں کا فائدہ ہوتا ہے۔
آج ہمارے سماج کی حالت سب کے سامنے ہے۔ہم اس بات کا اندازہ آسانی سے لگا سکتے ہیں کہ مروجہ نظام جو کالونیل دور کی یادگار ہے۔اس نظام کا مقصد ہی بالادست طبقات کے مفادات کا تحفظ اور عوام الناس کا استحصال ہے۔
آج دنیا میں بہت سی ریاستیں آزادی کے نعرے کی بنیاد پر وجود میں آئیں۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ریاستیں اپنے نظریے پر نظام نہیں بناسکیں۔ان ریاستوں کا نظام ان کی آزادی کے بعد بھی سامراجی طاقتوں سے آزاد نہ ہوسکا۔اور اس نظام نے ان کی قوم کو غلام ہی رکھا۔ان ریاستوں کا نظام عوام کو ان کے جائز حقوق دینے سے قاصر رہا اور استحصال عوام کا مقدر بن گیا ۔
آج تیسری دنیا کے ممالک میں سیاست کا مطالعہ کریں تو چند مخصوص خاندان سیاست پر مسلط ہیں۔ کیوں کہ ان کے آباؤاجداد نے قومی آزادی کی تحریکات سے غداری اور انگریز آقاؤں سے وفاداری کی، جس کے بدلے میں انھیں مال و دولت اور جاگیروں سے نوازا گیا، اور آج وہی خاندان صاحبِ اقتدار ہیں۔ آج دنیا میں 57 اسلامی ممالک ہیں،لیکن بدقسمتی سے کسی ایک ریاست میں اسلام کا نظام نہیں ہے۔
ان حکمرانوں کی کاسہ لیسی نے عوام کو معاشی تنگ دستی میں جکڑ دیا اور انھیں دو وقت کی روٹی کے لیے کولہو کا بیل بنا دیا گیا ہے۔
بیوروکریسی بھی کالونیل دور کا تسلسل ہے۔ان کا مقصد نظم و نسق کا قیام اور عوامی خدمت نہیں، بلکہ قومی دولت کی لوٹ مار اور پرتعیش زندگی ہے۔اور ان کی تمام سرگرمیوں کا محور اپنے آقاؤں کی خوش نودی ہے۔
اس نظام میں اعلیٰ عدلیہ کا کردار بھی انھی بالادست طبقات کے مفادات کا تحفظ ہے۔جب کہ عام آدمی انصاف کے حصول کے لیے چکر لگا لگا کر تھک جاتا ہےاور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہوتا۔غریب اور مجبور آدمی معمولی جرائم کی پاداش میں سالوں قید اور جرمانوں کے سزاوار قرار پاتے ہیں اور امرا قومی دولت لوٹنے اور بدترین جرائم پر بھی کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔
آج یہاں سیاسی و مذہبی جماعتیں ایک دوسرے کی مخالفت تو کرتی ہیں لیکن نظام کی مخالفت نہیں کرتیں۔جب کہ قرآن حکیم کل انسانیت کی فلاح و بہبود کا نظام پیش کرتا ہے۔قرآن حکیم کا نظام انسانی نفوس کی تہذ یب کے لیے ہے۔اس کو ہم نے پس پشت ڈال کر رسمی مذہب بنادیا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نام نہاد لیڈروں اور استحصالی نظام کی شراکت دار پارٹیوں کو رد کر کے نظام کی تبدیلی کے لیے شعوری انقلابی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے اور اس کے لیے ہمارے پاس سیرتِ طیبہﷺ ہے جو کامیاب انقلابی جدوجہد کی بہترین مثال ہے۔ ہمارے سامنے جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم ہے،جس جماعت نے نہ صرف عرب کے حالات تبدیل کیے، بلکہ عالمی طاقتوں قیصر و کسریٰ کا نظام ختم کرکے نظام عدل قائم کیا۔
آج کا تقاضا یہ ہے کہ مروجہ نظام کے استحصالی کردار اور معاشرے پر اس کے ہمہ گیر اثرات کو سمجھا جائے۔انتخابی سیاست اور اِصلاحی سرگرمیوں کے دل فریب جال سے دور رہ کر انقلابی نظریہ پر جماعت سازی کی جائے۔تاکہ ہم سامراجی نظام کے اس گھن چکر سے نجات پاسکیں ۔