سیاسی جماعتوں کو پرکھنے کی کسوٹی...
کسی جماعت کی کامیابی کن بنیادوں پر منحصر ہے؟ کسی جماعت کو پرکھنے کی کسوٹی کیا ہے؟ کیا واقعی کوئی جماعت حقیقت میں معاشرہ کی نمائندہ جماعت ہے؟
سیاسی جماعتوں کو پرکھنے کی کسوٹی...
راؤعبدالحمید۔ لاہور
کسی جماعت کو پرکھنے کی کسوٹی کیا ہے؟ کیا واقعی کوئی جماعت حقیقت میں معاشرے کی نمائندہ جماعت ہے یا صرف نعرہ بازی، پروپیگنڈا، ملکی و غیرملکی عناصر کی آلہ کار ہے...
درج ذیل تین نکات کسی بھی مذہبی، سیاسی، علاقائی ،لسانی جماعت کو پرکھنے کی کسوٹی ہیں...
اگر کوئی جماعت حقیقت میں ان نکات کی حامل ہے تو وہ جماعت بھی کہلانے کی حق دار ہے، معاشرے اور قوم پر اس کے اَثرات بھی بہت گہرے ہوں گے اور وہ کسی اندرونی و بیرونی طاقت کی آلہ کار بھی نہیں ہوگی۔ اس کی مضبوط جڑیں معاشرے میں ہوں گی۔ ان خوبیوں کی حامل جماعت قومی ترقی کا راستہ ہموار کرے گی...
1۔ نظریہ اور ہدف پر رسوخ
2۔ نظریہ پر جماعت سازی/تنظیم سازی
3۔ اپنے نظریہ اور ہدف کے نفاذ کے لیے طریقہ کار ...
ان نکات کی روشنی میں اگر کسی بھی متحرک سیاسی جماعت کو سامنے رکھ کر پرکھاجائے تو حیرانی کےعلاوہ کوئی چیز نمودار نہیں ہوتی۔کسی بھی سیاسی جماعت کا کچھ عرصہ گزرنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ وہ پارٹی اپنا نظریہ جماعت کو منتقل نہیں کر سکی۔ یعنی اکثر جماعتیں پہلی خوبی "نظریہ پر رسوخ" پر پورا نہیں اُترتیں۔تصوراتی نظریہ صرف قیادت تک محدود رہتا ہے۔نیچے کی تنظیم (ایم این ایز، ایم پی ایز، سینیٹرز اور اعلیٰ تنظیمی عہدے دار) نظریہ سے خالی ہوتے ہیں۔جب تنظیمی اعلیٰ عہدے دار اور منتخب نمائندے نظریہ سے خالی ہوں تو کیسے جماعت اپنے ہدف تک پہنچ سکے گی؟ مفادپرستی اور ذاتی مفاد کاحصول ہی ان کی اول ترجیح ہوگی۔اسی لیے ماضی قریب اور بعید میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندے تھوڑے سے پیسوں اور عالمی و مقامی دباؤ کے سامنے ڈھیر ہوگئے اور کلیدی عہدوں پہ براجمان ہونے اور حکومتوں کے عزل ونصب کے لیے بھاؤتاؤ معمول کی بات تصور کی جاتی ہے-
سیاسی جماعتیں سالہا سال سیاسی میدان میں مصروف عمل رہنے کے باوجود گراس روٹ لیول سے مرکز تک کوئی مضبوط تنظیم بنانے میں ناکام رہتی ہیں۔کارکن کی تربیت کا فقدان ہے۔کارکنان کے لیے مختلف موضوعات پر گفتگو، مباحث اور مکالمہ پر عملی مشق کہیں نظر نہیں آتی۔کارکنان سے محض نعرہ بازی، شورشرابہ اور جلسہ میں آمد کی توقع کی جاتی ہے۔سیاسی تحریکات کے نزدیک شاید یہی کافی عمل ہے،جس کی وَجہ سے کارکنان کھوکھلے انقلابی معلوم ہوتے ہیں۔انھیں ہر سوال کے جواب میں محض اپنے قائد کی تقریر سنانی پڑتی ہے۔عملی میدان میں موجود کارکن فیصلہ سازی سے باہر ہوتا ہے۔ جو محنتی، مخلص کارکن کے اندر بددلی کا سبب بنتا ہے۔اکثر سیاسی جماعتوں کی مقامی تنظیمیں تو ویسے ہی وجود نہیں رکھتیں، صوبائی اور مرکزی تنظیم میں قیادت کی آمریت بہت واضح ہوتی ہے،اس صورت حال کی وجہ سےجماعتوں کے بانی ارکان تک جماعتوں کو خیرآباد کہہ دیتے ہیں۔پاکستانی سیاسی جماعتوں میں پیرا شوٹرز کا غلبہ ہوتا ہے۔جنھیں عرف عام میں الیکٹیبلز (الیکشن جیتنے والا امیدوار) کہا جاتا ہے۔یہ ہمیشہ موسمی لوگ ہوتے ہیں، ان میں اکثریت کی تاریخ انگریز دور سے ہی غداری کی ہے۔پاکستان بننے کے بعد بھی وہ اسی روش پر قائم ہیں۔ایک نئی سرگرم سیاسی پارٹی کو پیراشوٹرز کی ایک اور قسم سے بھی واسطہ پڑاہے،جن کی اکثریت امریکا اور یورپ کی مستقل رہائشی ہے اور اس نے جماعت کے دورِاقتدار میں اہم عہدے سنبھالے ہیں۔یہ کسی بھی مشکل وقت میں بریف کیس اٹھا کر واپسی کا رخ کر سکتے ہیں۔کچھ ماہرین کی رائے میں یہ عالمی طاقتوں کے (ایجنٹ) بھی ہوسکتے ہیں جو مزید خطرناک ہے۔اگر ہم جماعت سازی کی کسوٹی پر اس قسم کی جماعتوں کو پرکھیں تو ایسی جماعتیں اس نکتہ پر پورا نہیں اُترتیں۔
کسوٹی کے تیسرے نکتہ جماعت سازی اور عملی تحریک میں ایک نئی صورت حال نے جنم لیا ہے-اب سیاسی جماعتوں کا زیادہ فوکس سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر ہے۔ ٹک ٹاکرز کو ہائر کیاجاتاہے جوجماعت کے پروگرام اور مقاصد کو سمجھتے تک نہیں ،شاید متفق بھی نہ ہوں،ایسے لوگ بہت باقاعدگی اور منظم انداز سے سوشل میڈیا پر جماعتوں کے حق میں مواد پھینکتے رہتے ہیں۔ ٹوئیٹر جیسے میڈیا پر ہر مشہور آدمی کا جعلی اکاؤنٹ بناکر اپنے حق میں ٹوئیٹ کیے جاتے ہیں۔یہ ہے تو ضمنی تفصیل، لیکن حالیہ سیاسی جماعتوں کا ان پلیٹ فارمز پر فوکس بہت زیادہ ہے۔
ضجماعت ترقی کرتی ہے، حقیقی کارکن کی تعداد، اس کی تربیت اور نظریہ پر گرفت سے۔موجود حالات میں جتنے لوگ اپنے آپ کو کسی سیاسی جماعت سےمنسلک کہلاتے ہیں وہ حقیقت میں قیادت کی شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں۔جس پر میڈیا مسلسل کام کررہا ہوتا ہے۔ایک وقت تک مقامی، عالمی طاقتیں قیادت کی حمایت میں سرگرم رہتی ہیں اور سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اس قیادت کو کوریج دے رہا ہوتا ہے،جیسے ہی یہ طاقتیں ہاتھ کھینچتی ہیں تو سارا پروپیگنڈا مخالفت پر اُتر آتاہے۔اسی قیادت کی کردار کشی کرتاہے تو پھر محض شخصیت سے متاثر لوگ بھاگ کھڑے ہوتےہیں۔قیادت اور اس جماعت کو اپنانے والے افراد کم ہوناشروع ہوجاتے ہیں۔حقیقی کارکنان وہ کہلاتے ہیں جو کسی پروپیگنڈا سے متاثر نہ ہوں، بلکہ ہر طرح کے حالات میں اپنی جماعت اور قائدین کے ساتھ کھڑے ہوں۔کسی بھی جماعت کی مرکزی قیادت کے علاوہ دیگر قائدین پر نظر دوڑائیں تو سب مافیاز کے نمائندے ملیں گے جو ہر بات یہیں سے شروع کریں گے کہ ہم اپنےقائد کے ویژن پر کھڑے ہیں اور ہر قسم کا کریڈٹ اپنے قائد کو دیں گے،مگر جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اب قیادت کا بت ٹوٹ رہا ہے تو یہ سارا ملبہ اسی قیادت پر ڈال کر اگلے دربار پر ڈیرے ڈال لیتےہیں۔یعنی مرکزی قیادت کی نظریاتی جڑیں جماعت سے نہیں ملتیں۔
ہر سیاسی جماعت پاکستان میں کچھ نیا کام کرنے کادعوی کرتی ہے۔گویا پہلے نظام کے بوسیدہ ہونے کا وہ اقرار کرتی ہے۔اور برملا اس نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش کا اِظہار کرتی ہے۔اس بوسیدہ نظام کی خرابیوں کی نشان دہی بھی کرتی ہے۔اور ظاہر کرتی ہے کہ اصل نظریہ اور ہدف اس نظام کی تبدیلی ہے۔دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کیا واقعی وہ اس نظام کی تبدیلی کے راستے پر گامزن ہے، تو اس کا جواب "نہیں" میں ملے گا۔
نظام کی تبدیلی کے لیے کارکن کی تربیت کرنا ہوتی ہے۔نعرہ بازی کے بجائے مثبت کردار ادا کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ فیصلہ سازی سکھائی جاتی ہے۔ نظریاتی لوگوں کو غالب کیا جاتا ہے۔مفادپرست ٹولے کو بے اَثر کیا جاتا ہے۔فیصلوں میں آمریت کے بجائے مشاورت کا ماحول بنایا جاتا ہے۔ کارکنان میں ثابت قدمی اور نظریاتی رسوخ پیدا کیا جاتا ہے۔گراس روٹ لیول سے لے کر مرکز تک بہترین اور مضبوط تنظیم بنائی جاتی ہے۔پیراشوٹرز کا راستہ روکا جاتا ہے۔عالمی اور مقامی طاقتوں کی جھولی سے نکلنا پڑتا ہے۔حقیقی عوامی نمائندگی سے منتخب ہوکر ایوانوں میں پہنچا جائے تو پھر امید کی جاسکتی ہے کہ "کچھ نیا ہونے" کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔درج بالا تینوں کسوٹیوں پر سیاسی جماعتیں پورا نہیں اُترتیں۔ان نقائص کا برملا اعتراف قائدین کرتے بھی رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود پرانے ڈگر پر ہی چلتے رہتے ہیں- جو جماعت اس کسوٹی پر پورا نہیں اُترتی بہت زیادہ امکان ہے کہ وہ کسی نہ کسی مافیا یا عالمی طاقت کے لیے استعمال ہوجائے اور عوام کی فلاح کا خواب ادھورا رہ جائے۔پاکستانی تمام سیاسی جماعتوں کےحالات مذکورہ بالا گفتگو کی روشنی میں معمولی فرق کے ساتھ یکساں ہیں،اسی لیے تھوڑے تھوڑےوقفے سےوجود میں آنے والی جماعتیں نوجون اور عوام کومایوسی کےعلاوہ کچھ نہیں دے پاتیں۔درحقیقت ان جماعتوں کو تشکیل دینے والی در پردہ قوتوں کا ہدف یہی ہوتا ہے تاکہ نوجوان بےکار سرگرمیوں میں پڑ کر مایوس ہوتے رہیں اور قومی فلاح کا خواب ادھورا ہی رہے۔